1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سقوط دمشق: ایردوآن ایک بڑے فاتح؟

17 دسمبر 2024

بشار الاسد کا زوال ترک صدر ایردوآن کے لیے بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کا ایک سنہری موقع ثابت ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شام میں رونما ہونے والی اس ڈرامائی صورتحال سے ایردوآن لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4oGO4
رجب طیب ایردوآن اور بشارالاسد
رجب طیب ایردوآن اور بشارالاسد تصویر: M. Tereshchenko/H. Akgun/TASS/dpa/Anadolu/picture alliance

 تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کا تختہ الٹنے والے باغیوں کی پشت پناہی کرنے اور  قرن افریقہ امن معاہدے میں ثالث کا کردار ادا کر کے، ترک صدر رجب طیب ایردوآن  نے اپنی بین الاقوامی حیثیت کو بڑھایا ہے اور یوں وہ روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کے لیے بھی موزوں نظر آنا چاہتے ہیں۔

گرچہ ترکی شام کے طاقتور حکمران بشار الاسد کی معزولی میں براہ راست ملوث نہیں تھا، لیکن اس نے طویل عرصے سے اسلام پسندوں کی قیادت میں HTS باغیوں، جنہوں نے اسد کا تختہ الٹا، کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھا، جبکہ دیگر حکومتیں اس گروپ کی جڑوں کے القاعدہ سے جُڑے ہونے پر پریشان ہیں۔

ترک صدر ایردوآن شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کو تیار

ایردوآن کے متعدد ہوشیار اقدامات

رجب طیب ایردوآن اُس وقت بہت خوش نظر آئے جب باغیوں نے دمشق پر دھاوا بول دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد ان کے داخلی انٹیلیجنس سروس کے  سربراہ ابراہیم کلن باغیوں کی قیادت کرنے والے گروپ ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے رہنما ابو محمد الجولانی سے ملنے والی پہلے ہائی پروفائل شخصیت بن گئے، جو اب اپنے اصلی نام احمد الشارع کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

حلب میں روسی اور شامی طیاروں کے باغیوں پر حملے

’دریائے فرات میں پانی کی قلت میں ترکی کا اہم کردار ہے‘

 اُسی ہفتے ایتھوپیا اور صومالیہ کے درمیان ایک سال سے جاری تلخ تنازعہ کے خاتمے کے لیے ایردوآن نے ایک اور سفارتی بغاوت کی۔ ایردوآن  کے بین الاقوامی مقام میں خاطر خواہ بہتری کا ایک بڑا اور واضح ثبوت شام کی بغاوت میں ترکی کے کردار کو پیر کو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  کی طرف سے ملنے والی داد و تحسین کو سمجھا جا رہا ہے۔

شامی خانہ جنگی چودھویں سال میں داخل، تشدد میں اضافہ

 ٹرمپ نے فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ''میرے خیال میں ترکی بہت ہوشیار ہے، اس نے ایک ایسا غیر دوستانہ قبضہ کیا، جس میں بہت سی جانیں ضائع نہیں ہوئیں۔‘‘

ایتھوپیا اور صومالیہ کے درمیان ایک سال سے جاری تلخ تنازعہ کے خاتمے کے لیے ایردوآن نے اہم کردار ادا کیا
ایردوآن نے قرن افریقہ امن معاہدے میں ثالث کا کردار ادا کیاتصویر: DHA

’ایردوان نے اب تک اپنے پتے اچھی طرح کھیلے ہیں‘

مختلف بین الاقوامی تھنک ٹینکس سے منسلک ماہرین اور تجزیہ کاروں نے سقوط دمشق کے بعد سے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی متعدد سیاسی اور سفارتی چالوں کو بہت  سوچی سمجھی اسٹریٹیجی قرار دیا ہے۔ ایک معروف برطانوی ریسرچ نیٹ ورک مارلو گلوبل کے ڈائریکٹر انتھونی اسکنر نے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،''ایردوآن نے پاور پروجیکشن اور سکیورٹی کے نقطہ نظر سے طویل کھیل کھیلا ہے۔‘‘

شام میں بشار الاسد کا تختہ الٹنا امریکی اسرائیلی منصوبے کا نتیجہ ہے، خامنہ ای

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت نے ''ریاست اور غیر ریاستی دونوں فریقوں کے ساتھ تعلقات کو احتیاط سے استوار کیا ہے تاکہ ترکی شام کے پچھلے حصے میں اور مزید آگے سے آگے بڑھ سکے۔‘‘ انتھونی اسکنر کے بقول،'' ترکی کی شام اور قرن افریقہ میں واپسی خاص طور پر واضح ہے۔ ایردوآن نے اب تک اپنے پتے اچھے کھیلے ہیں اور شام میں ان کا کردار قابل رشک ہے۔‘‘

 کچھ ہی دن بعد، ایردوآن نے خرطوم اور ابوظہبی کے درمیان سوڈان کو گھیرے ہوئے وحشیانہ تنازعے، جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، کو حل کرنے کے لیے عملی اقدام کی پیشکش بھی کی۔

عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں صدر بشارالاسد کی شرکت کی تصدیق

شام کے تنازعے کے شکار شامی کرد باشندے حلب سے الطبقہ کی جانب نقل مکانی پر مجبور تھے
شام کے تنازعے نے شامی کرد باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو پناہ کی تلاش میں در بدر کیا تھاتصویر: Delil Souleiman/AFP via Getty Images

میکس ابراہمس انٹرنیشنل سکیورٹی کے پروفیسر ہیں اور دہشت گرد گروہوں کے محرکات پر ایک کتاب بھی لکھ چُکے ہیں، کہتے ہیں،''ایرادوآن شام میں ہونے والی بغاوت کے ایک بڑے فاتح ہیں۔‘‘ پروفیسر ابراہمس نے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ''اسد کے طویل مدتی حامی کے موجودہ منظر نامے سے باہر ہو جانے کے بعد روس یوکرین کے ساتھ جاری جنگ میں پھنس گیا ہے۔ اُدھر ایران اپنی حزب اللہ پراکسی پر اسرائیلی حملوں سے کمزور پڑ چُکا ہے ۔ اس صورتحال نے ترک  صدر ایردوآن کے لیے سیاسی بساط پر کھل کر کھیلنے کے لیے سطح ہموار کر دی۔ اس طرح شام میں ترک اثر و رسوخ بڑھانے کا بھرپور موقع میسر آگیا۔‘‘

بین الاقوامی سکیورٹی امور کے ماہر  میکس ابراہمس کا ماننا ہے کہ اس صورتحال میں انقرہ حکومت کو کرد جنگجوؤں کی پارٹی پی کے کے کے خطرات کم کرنے کے لیے آگے سے آگے بڑھنے کا موقع مل گیا ہے۔ خاص طور سے شامی کُرد جنگجوؤں کے خلاف۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترکی کو جو چیز مزید مضبوط کر سکتی ہے وہ آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ ہو گا۔

ک م/ ع ب (اے ایف پی)