سری لنکا میں تامل صحافی کو سزا، امریکہ کی جانب سے تنقید
1 ستمبر 2009سری لنکن ہائی کورٹ نے کل پیر کو صحافی جے ایس تسائے نایاگم کو ان کی تحریروں اور رپورٹوں میں فوج کی مخالفت اور تامل ٹائیگرز کی حمایت کرنے کے الزام میں یہ سخت سزا سنائی۔ عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوے تسائے نایاگم کو ’’فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے‘‘ کا مجرم قرار دیا۔ تامل صحافی تاہم خود کو ’’بے قصور‘‘ بتاتے ہیں۔
امریکہ نے تسائے نایاگم کے خلاف عدالتی فیصلے پر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یعنی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان رابرٹ وُڈ نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ امریکہ کو اس فیصلے پر مایوسی ہوئی ہے۔
’’تسائے نایاگم کے خلاف عدالتی فیصلے اور سزا کی مدت پر ہمیں شدید مایوسی ہوئی ہے۔ ہم اس صحافی کے کیس کا باریکی سے جائزہ لے رہے ہیں۔‘‘
دوسری جانب انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس IFJ نے تسائے نایاگم کو بیس سال قید کی سزا کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’اس فیصلے سے ایک بار پھر یاد دہانی ہوتی ہے کہ سری لنکا میں غیر جانبدار صحافیوں کے لئے کام کرنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔‘‘
ادھر ایشین ہیومن رائٹس کمیشن AHRC نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسے عدالتی فیصلے پر ’’سخت حیرت‘‘ ہوئی ہے۔ AHRC کے مطابق صحافی تسائے نایاگم کے مقدمے کے پیچھے صاف طور پر ’’سیاست کا عمل دخل ہے۔‘‘
جے ایس تسائے نایاگم ’نارتھ ایسٹرن‘ نامی ایک ماہانہ جریدے کے مدیر ہیں۔ انہیں
مارچ 2008ء میں گرفتار کیا گیا۔ مسلح تامل باغیوں کے خلاف سری لنکن فوج کے آپریشن کے دوران اس صحافی نے اپنے میگیزین میں کئی ایسے آرٹیکل لکھے، جن میں فوج کے طریقہء کار پر تنقید کی گئی۔ بغیر کوئی مقدمہ چلائے تسائے نایاگم کو کئی مہینوں تک جیل میں رکھا گیا جس کے بعد پریس کی آزادی کے لئے سرگرم متعدد تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے احتجاج کیا۔
بعد ازاں حکومت نے تامل صحافی پر متنازعہ انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت فرد جرم داخل کردی۔
یکم مئی، پریس کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایک بیان میں سری لنکن صحافی جے ایس تسائے نایاگم کا تذکرہ کیا تھا۔ سری لنکن حکومت نے تاہم کہا تھا کہ امریکی صدر کو اس کیس کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئیں تھیں۔
تامل ٹائیگرز کے خلاف چھبیس سالہ جنگ کے دوران سری لنکن فوج کو حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور پامالیوں کے حوالے سے ہمیشہ ہی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: ندیم گِل