شام میں اسد دور کے خاتمے پر عالمی ردعمل، کس نے کیا کہا؟
8 دسمبر 2024شام کی کئی سالہ خانہ جنگی میں آج اتوار آٹھ دسمبر کی صبحصدر بشار الاسد کے دور اقتدار کے خاتمے کی صورت میں آنے والے نئے موڑ نے مشرق وسطیٰ کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے پہلے ہی سے پائی جانے والی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
شامی اپوزیشن گروپ حیات تحریر الشام کے جنگجو دشمق میں داخل ہو چکے اور صدر اسد ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال میں بہت سے بین الاقوامی رہنماؤں نے اپنے ردعمل میں تنبیہ بھی کی اور مستقبل کے بارے میں امید کا اظہار بھی کیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن
شام کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں امریکہ میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''صدر جو بائیڈن اور ان کی ٹیم شام میں پیش آنے والے غیر معمولی حالات پر بہت قریب سے نظر رکھے ہوئے ہیں اور امریکی انتظامیہ اس بارے میں مشرق وسطیٰ میں اپنے پارٹنرز کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔‘‘
نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اگلے ماہ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، شام کی صورت حال کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کردہ اپنے ایک بیان میں کہا، ''اسد جا چکے۔ وہ ملک سے فرار ہو گئے۔ ان کے محافظ روس کی ولادیمیر پوٹن کی قیادت میں بشار الاسد کی مزید حفاظت کرتے رہنے میں دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا، ''روس اور ایران اس وقت کمزور ہو چکی حالت میں ہیں۔ ایک یوکرین کی جنگ اور بری معیشت کی وجہ سے، اور دوسرا اسرائیل اور اس کی عسکری کامیابیوں کے باعث۔‘‘
اطالوی وزیر خارجہ انٹونیو تاجانی
اطالوی وزیر خارجہ انٹونیو تاجانی نے شام میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''ہم شام میں موجودہ صورت حال پر توجہ لیکن تشویش کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہمارا دمشق میں اطالوی سفارت خانے اور روم میں ملکی وزیر اعظم کے دفتر کے ساتھ بھی مسلسل رابطہ ہے۔‘‘
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب
اقوام متحدہ کے شام کے لیے خصوصی مندوب گائر پیڈرسن نے اپنے رد عمل میں کہا کہ اہم ترین بات کئی ملین شامی باشندوں کی طرف سے ظاہر کردہ یہ واضح خواہش ہے کہ اس وقت ملک میں ہر کسی کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے امن اور استحکام کے لیے کوششیں کی جانا چاہییں۔‘‘
پیڈرسن نے اپنے بیان میں کہا، ''اب جب کہ تمام شامی باشندے مل کر اپنے معاشرے کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں، سبھی شامی شہریوں کو مکالمت کے ساتھ اور مل کر، انسان دوستی کے بین الاقوامی قانون کا احترام کرتے ہوئے، اپنے اور اپنے ملک کے بہتر اور مستحکم مستقبل کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘‘
شامی خانہ جنگی میں کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے، اور کیوں؟
برطانوی نائب وزیر اعظم
برطانوی نائب وزیر اعظم اینجلا رینر نے بشار الاسد کے دور اقتدار کے خاتمے پر کہا کہ برطانیہ شام میں اسد حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کرتا ہے۔ لندن حکومت شام سے تمام برطانوی شہریوں کے انخلا کے لیے پہلے ہی سے کام کر رہی تھی۔‘‘
چینی حکومت کا ردعمل
بیجنگ میں چینی حکومت نے شام کی تازہ ترین صورت حال پر اپنے رد عمل میں امید ظاہر کی کہ مشرق وسطیٰ کا یہ ملک ''جلد از جلد استحکام کی طرف‘‘ لوٹ آئے گا۔ اسلام پسند شامی باغیوں کے دمشق پر قبضے اور صدر اسد کے ملک سے فرار ہو جانے کے تناظر میں بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ''چین شام میں پیش آنے والے واقعات پر بہت قریب سے گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور امید کرتا ہے کہ یہ ملک جلد از جلد واپس استحکام کی طرف لوٹ آئے گا۔‘‘
م م / ا ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)