1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں اسد دور کے خاتمے پر عالمی ردعمل، کس نے کیا کہا؟

8 دسمبر 2024

خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں صدر بشار الاسد کے چوبیس سالہ دور اقتدار کے خاتمے پر بین الاقوامی سطح پر بہت سے رہنماؤں نے اپنے ردعمل میں تنبیہ کی کہ شام کی صورت حال کو خطے میں عدم استحکام میں اضافے کی وجہ نہیں بننا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/4nt0u
دمشق میں خوشیاں مناتے ہوئے ایک فوجی ٹینک پر چڑھ جانے والے بہت سے شامی شہری
دمشق میں خوشیاں مناتے ہوئے ایک فوجی ٹینک پر چڑھ جانے والے بہت سے شامی شہریتصویر: AFP

شام کی کئی سالہ خانہ جنگی میں آج اتوار آٹھ دسمبر کی صبحصدر بشار الاسد کے دور اقتدار کے خاتمے کی صورت میں آنے والے نئے موڑ نے مشرق وسطیٰ کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے پہلے ہی سے پائی جانے والی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

شامی اپوزیشن گروپ حیات تحریر الشام کے جنگجو دشمق میں داخل ہو چکے اور صدر اسد ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال میں بہت سے بین الاقوامی رہنماؤں نے اپنے ردعمل میں تنبیہ بھی کی اور مستقبل کے بارے میں امید کا اظہار بھی کیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن

 شام کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں امریکہ میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''صدر جو بائیڈن اور ان کی ٹیم شام میں پیش آنے والے غیر معمولی حالات پر بہت قریب سے نظر رکھے ہوئے ہیں اور امریکی انتظامیہ اس بارے میں مشرق وسطیٰ میں اپنے پارٹنرز کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔‘‘

دمشق میں دو نوجوان خواتین بشار الاسد کے ایک فٹ پاتھ پر لگے ہوئے لیکن پھٹے ہوئے پوسٹر کی اپنے موبائل فونز کے ساتھ تصویریں بناتے ہوئے
دمشق میں دو نوجوان خواتین بشار الاسد کے ایک فٹ پاتھ پر لگے ہوئے لیکن پھٹے ہوئے پوسٹر کی اپنے موبائل فونز کے ساتھ تصویریں بناتے ہوئےتصویر: Orhan Qereman/REUTERS

نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ

نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اگلے ماہ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، شام کی صورت حال کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کردہ اپنے ایک بیان میں کہا، ''اسد جا چکے۔ وہ ملک سے فرار ہو گئے۔ ان کے محافظ روس کی ولادیمیر پوٹن کی قیادت میں بشار الاسد کی مزید حفاظت کرتے رہنے میں دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔‘‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا، ''روس اور ایران اس وقت کمزور ہو چکی حالت میں ہیں۔ ایک یوکرین کی جنگ اور بری معیشت کی وجہ سے، اور دوسرا اسرائیل اور اس کی عسکری کامیابیوں کے باعث۔‘‘

اطالوی وزیر خارجہ انٹونیو تاجانی

اطالوی وزیر خارجہ انٹونیو تاجانی نے شام میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''ہم شام میں موجودہ صورت حال پر توجہ لیکن تشویش کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہمارا دمشق میں اطالوی سفارت خانے اور روم میں ملکی وزیر اعظم کے دفتر کے ساتھ بھی مسلسل رابطہ ہے۔‘‘

اسد حکومت کے خاتمے کی اطلاع ملتے ہی بہت سے شامی شہری پیدل یا اپنی گاڑیوں میں سوار خوشیاں مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے
اسد حکومت کے خاتمے کی اطلاع ملتے ہی بہت سے شامی شہری پیدل یا اپنی گاڑیوں میں سوار خوشیاں مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھےتصویر: Louai Beshara/AFP

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب

اقوام متحدہ کے شام کے لیے خصوصی مندوب گائر پیڈرسن نے اپنے رد عمل میں کہا کہ اہم ترین بات کئی ملین شامی باشندوں کی طرف سے ظاہر کردہ یہ واضح خواہش ہے کہ اس وقت ملک میں ہر کسی کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے امن اور استحکام کے لیے کوششیں کی جانا چاہییں۔‘‘

پیڈرسن نے اپنے بیان میں کہا، ''اب جب کہ تمام شامی باشندے مل کر اپنے معاشرے کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں، سبھی شامی شہریوں کو مکالمت کے ساتھ اور مل کر، انسان دوستی کے بین الاقوامی قانون کا احترام کرتے ہوئے، اپنے اور اپنے ملک کے بہتر اور مستحکم مستقبل کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘‘

شامی خانہ جنگی میں کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے، اور کیوں؟

شام کے باغی جنگجوؤ کی تنظیم HTS کون ہے؟

برطانوی نائب وزیر اعظم

برطانوی نائب وزیر اعظم اینجلا رینر نے بشار الاسد کے دور اقتدار کے خاتمے پر کہا کہ برطانیہ شام میں اسد حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کرتا ہے۔ لندن حکومت شام سے تمام برطانوی شہریوں کے انخلا کے لیے پہلے ہی سے کام کر رہی تھی۔‘‘

چینی حکومت کا ردعمل

بیجنگ میں چینی حکومت نے شام کی تازہ ترین صورت حال پر اپنے رد عمل میں امید ظاہر کی کہ مشرق وسطیٰ کا یہ ملک ''جلد از جلد استحکام کی طرف‘‘ لوٹ آئے گا۔ اسلام پسند شامی باغیوں کے دمشق پر قبضے اور صدر اسد کے ملک سے فرار ہو جانے کے تناظر میں بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ''چین شام میں پیش آنے والے واقعات پر بہت قریب سے گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور امید کرتا ہے کہ یہ ملک جلد از جلد واپس استحکام کی طرف لوٹ آئے گا۔‘‘

م م / ا ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

شام میں انتہا پسند باغی حمص میں داخل