شامی باغی حما میں داخل ہو گئے
5 دسمبر 2024برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے جمعرات کے روز کہا کہ شام میں اسلام پسندوں کی قیادت والے باغیوں نے اہم اسٹریٹیجک شہر حما کو تین اطراف سے گھیر لیا ہے اور وہ اس شہر میں داخل ہونے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں۔
اس کے کچھ ہی دیر بعد باغی کمانڈر حسن عبدالغنی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ باغی شہر میں گھس چکے ہیں۔ سیریئن آبزرویٹری کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں شامی حکومت کی طرف سے ''بڑے فوجی قافلوں کو حما‘‘ اور آس پاس کے علاقے میں بھیجنے کے باوجود باغی یہ اہم پیش رفت کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شامی فوج میں روسی اور ایرانی افسران بھی شامل ہوئے ہیں کیونکہ دونوں ممالک شامی صدر بشار الاسد کے دیرینہ اتحادی ہیں۔ تاہم اب سرکاری فوجیوں کے پاس ''جنوب میں حمص کی طرف صرف ایک راستہ رہ گیا ہے۔‘‘
شامی خانہ جنگی میں کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے، اور کیوں؟
دریں اثناء سرکاری خبر رساں ایجنسی SANA نے تصدیق کی ہے کہ حکومت حما صوبے میں ''شدید لڑائی‘‘ لڑ رہی ہے، جس کی قیادت ''شامی اور روسی جنگی طیارے مشترکہ طور پر‘‘ کر رہے ہیں۔
ادھر جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی اطلاعات کے مطابق ایوارڈ یافتہ شامی فوٹوگرافر انس الخربوتلی حما پر کیے گئے ایک فضائی حملے میں مارا گیا ہے۔
شامی تنازعہ، باغیوں کے چھ گروپوں کا اتحاد
حیرت انگیز جارحیت
گزشتہ ہفتے حیات تحریر الشام کے انتہا پسند باغیوں اور ان کے اتحادیوں کی قیادت میں ایک حیرت انگیز حملے کے بعد سے پرتشدد جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس گروپ نے بہت جلد ہی شہر حلب پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ وہ شہر ہے جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری شامی جنگ میں کبھی دمشق حکومت کے ہاتھوں سے نہیں نکلا تھا۔شامی اپوزیشن کے ساتھ تجارت پر امریکی پابندیوں میں نرمی
واضح رہے کہ حیات تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کی جڑیں دہشت گرد گروپ القاعدہ کی شامی شاخ سے جڑی ہیں۔ مزید برآں گرچہ شہر حما 2011 ء میں صدر اسد کی حکمرانی کے خلاف بڑے مظاہروں کا گڑھ تھا تاہم اس صوبے میں علویوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ صدر بشار الاسد کا تعلق اسی علوی مذہبی برادری سے ہے اور اس لیے یہ صدر اسد کی طاقت کا مضبوط گڑھ مانا جاتا ہے۔
شامی صدر اسد کے مخالفین متحد ہو گئے
اقوام متحدہ کے مطابق شام میں تشدد کے تازہ ترین واقعات میں زیادہ تر ہلاکتیں جنگجوؤں کی ہوئی ہیں اور قریب ایک لاکھ پندرہ ہزار افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
ک م/ م م (الزبتھ شوماخر)