1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شبِ یکجہتی‘: برلن میں پہلی مرتبہ بے گھر افراد کی مردم شماری

30 جنوری 2020

جرمن دارالحکومت کی شہری انتظامیہ نے پہلی مرتبہ بے خانماں افراد کی مردم شماری شروع کر دی ہے۔ ’شبِ یکجہتی‘ کے نام سے اس پیش رفت کا مقصد عملاﹰ یہ ثابت کرنا ہے کہ برلن ’شہر اپنے بےگھر باسیوں کو بھی اپنا حصہ سمجھتا ہے‘۔

https://p.dw.com/p/3X175
تصویر: DW/Shamsan Anders

برلن صرف وفاقی جمہوریہ جرمنی کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ ایک شہری ریاست کے طور پر ایک وفاقی صوبہ بھی ہے۔ برلن کی صوبائی حکومت اس منصوبے کے ‌ذریعے یہ جاننا چاہتی ہے کہ شہر میں بےگھر افراد کی مجموعی آبادی کتنی ہے، تاکہ ایسے باسیوں کی فلاح و بہبود کے لیے مزید مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔

لیکن ساتھ ہی 'شبِ یکجہتی‘ کے نام سے اس پیش رفت کے دو دیگر مقاصد بھی ہیں: ایک یہ کہ بےگھر افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں رہائشی سہولیات مہیا کی جا سکیں اور دوسرے یہ کہ عملی طور پر یہ بھی ثابت کیا جا سکے کہ یہ شہر ان باسیوں کو بھی اپنا حصہ سمجھتا ہے، جن کا کوئی گھر نہیں ہے۔

دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا تیسرا منصوبہ

برلن دنیا بھر میں یہ کام کرنے والا صرف تیسرا شہر ہے۔ جرمن صدر مقام سے قبل امریکا میں نیو یارک اور فرانس میں پیرس کی شہری حکومتیں بھی یہ کوششیں کر چکی ہیں کہ انہیں علم ہونا چاہیے کہ وہاں ایسے افراد کی درست تعداد کتنی ہے، جن کے سروں پر کوئی چھت نہیں ہوتی۔

Deutschland Berlin Symbolbild Armut
تصویر: Imago/H. Müller-Stauffenberg

شہری ریاست برلن میں ایسا کیے جانے کا کئی سماجی فلاحی اداروں کی طرف سے کافی عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

اس منصوبے پر عمل بدھ انتیس جنوری کی رات کیا گیا، جس دوران تین گھنٹے تک شہر کے سبھی حصوں میں ہزاروں رضاکاروں نے اس عمل میں حصہ لیا۔ حتمی نتائج کچھ ہی عرصے میں سامنے آ جائیں گے۔

ان رضاکاروں کی تعداد تین ہزار سات سو سے زیادہ تھی اور انہیں تین سے لے کر پانچ افراد تک کی سینکروں ٹیموں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان ٹیموں کو بےگھر افراد کی مردم شماری کا کام مجموعی طور پر 617 ایسے پہلے سے مختص کردہ شہری علاقوں میں کرنا تھا، جن میں سے کوئی بھی بہت وسیع نہیں تھا۔

مردم شماری میں پوچھے جانے والے سوالات

اس 'مردم شماری‘ کے دوران رضاکاروں کا کام یہ تھا کہ وہ ایسے لوگوں کی تعداد گنیں، جو سڑکوں، فٹ پاتھوں یا عوامی مقامات پر رہتے یا شب بسری کرتے ہیں۔

اس دوران ایسے افراد سے جو چند مختصر سوالات پوچھے گئے، وہ ان کی عمر، صنف اور شہریت کے علاوہ اس بارے میں تھے کہ وہ کب سے بے گھر ہیں۔

برلن کے میئر میشائل میولر کے مطابق اس عمل کا مقصد بے گھر افراد سے متعلق ایسی پالیسی تیار کرنا ہے، جو زمینی حقائق کے عین مطابق ہو اور جس کے ذریعے ایسے افراد کی زیادہ سے زیادہ عملی مدد بھی یقینی بنائی جا سکے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برلن میں اس وقت 36 ہزار افراد ایسے ہیں، جو شہری حکومت کی طرف سے مہیا کردہ رہائش گاہوں اور شیلٹر ہاؤسز میں رہتے ہیں۔

ایسے افراد میں سے 84 فیصد مرد اور 16 فیصد خواتین ہیں اور ان میں سے نصف سے زائد کا تعلق کسی نہ کسی ایسے ملک سے ہے، جو یورپی یونین کا رکن نہیں ہے۔

بین نائٹ (م م / ا ا)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں