میانمار میں اپنا سفارت کار واپس بھیج سکتے ہیں، کلنٹن
1 دسمبر 2011امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے ینگون میں آج جمعرات کو نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے امریکی صدر باراک اوباما کا ایک خصوصی خط بھی سوچی تک پہنچایا۔ اوباما نے میانمار کی جمہوریت پسند اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی کو اپنی بھر پور حمایت کا یقین دلایا ہے۔ اس خط میں صدر اوباما کی طرف سے کہا گیا ہے کہ امریکہ سوچی کے ساتھ نہ صرف اب بلکہ ہمیشہ کھڑا ہو گا۔ انہوں نے اپنے خط میں طویل قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے والی رہنما کی دلیرانہ اور مستحکم جدوجہد کی تعریف کی ہے۔
قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ نے میانمار کے نئے دارالحکومت نپ یا دیو میں صدر تھان سین کے ساتھ ملاقات کی۔ سابق فوجی جرنیل اور موجودہ صدر تھان سین نے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں یہ ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔
ہلیری کلنٹن نے صدر تھان سین کو بتایا کہ امریکی صدر باراک اوباما اور وہ خود ان کے اصلاحاتی پروگرام سے متاثر ہیں۔ ابتدائی کلمات کے بعد امریکی وزیر خارجہ اور میانمار کے صدر کے درمیان ملاقات بند کمرے میں ہوئی۔ اس میں دونوں اطراف سے حکومتی معاونین بھی شریک تھے۔
کلنٹن نے اس ملاقات کو مخلصانہ اور تعمیری قرار دیا۔ ملاقات کے بعد ہلیری کلنٹن نے اعلان کیا کہ امریکہ مشکلات میں گھرے ملک میانمار کو امداد کی فراہمی کی حمایت کرے گا۔ انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ امریکہ دو دہائیوں بعد میانمار میں اپنا سفارت کار واپس بھیج سکتا ہے۔
ہیلری کلنٹن نے نپ یادیو پہنچنے پر اس امید کا اظہار کیا کہ میانمار میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی بحالی کا جو عمل شروع ہوا ہے اس میں اور بھی تیزی آئے گی: ’’ہم اور بہت سی دیگر اقوام بہت زیادہ پر امید ہیں کہ تبدیلی کے یہ اشارے جنہیں صدر اوباما نے بالی میں ترقی کا جھلملاتا چراغ قرار دیا تھا، بھڑک کر تبدیلی کی ایک ایسی تحریک کی شکل اختیار کر لیں گے، جس سے میانمار کے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔‘‘
کلنٹن جنوبی کوریا میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد گزشتہ روز سابق برما اور موجودہ میانمار کے دارالحکومت نپ یادیو گزشتہ روز پہنچیں۔ ان کے اس دورے کا اعلان امریکی صدر باراک اوباما نے آسیان سربراہ کانفرنس کے دوران کیا تھا۔
رپورٹ: افسر اعوان / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی