نسل کُشی دراصل ہے کیا؟
5 مارچ 2023جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے حالیہ اجلاس کے افتتاحی دن ایک ویڈیو پیغام میں یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے کہا کہ روس کی جانب سے یوکرین سے ہزاروں بچوں کی منتقلی کی اطلاع ''نسل کشی کا جرم‘‘ ہے۔ جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئرباک سمیت کئی مغربی حکام نے بچوں کو منظم طریقے سے روس بھیجے جانے کی خبروں کی مذمت کی ہے۔ ان الزامات نے روسی حکام کے خلاف فوجداری مقدمہ چلانے کے بارے میں بحث کو پھر سے جنم دیا ہے۔
لیکن اصل میں نسل کشی کیا ہے اور اس اصطلاح کا اطلاق کب کیا جا سکتا ہے؟
نسل کشی کی اصطلاح پہلی بار دوسری عالمی جنگ کے دوران ہولوکاسٹ کی ہولناکیوں کے درمیان وضع کی گئی۔ نسل کشی کو لوگوں کے ایک خاص گروہ کو ختم کرنے کے ارادے کے طور پر بیان کیا گیا۔
1943ء میں ایک یہودی پولش وکیل رافیل لیمکن نے یہ اصطلاح جزوی طور پر نازی جرمنی میں ہٹلر کے یہودیوں کے منظم قتل کے جواب میں پیش کی۔ لیمکن نے اپنے بھائی کے علاوہ ہولوکاسٹ میں اپنا پورا خاندان کھو دیا تھا۔ لیمکن نے نسل کشی کو بین الاقوامی قانون کے تحت جرم کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے مہم چلائی، جس نے 1948ء میں اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کو اپنانے کی راہ ہموار کی، جو 1951ء میں نافذ العمل ہوا۔
کنونشن کے آرٹیکل دو میں نسل کشی کی تعریف کسی بھی ایسی کارروائی کے طور پر کی گئی ہے، جو ''کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کی گئی ہو۔‘‘ اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق ایسی کارروائیوں میں قتل، سنگین جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا یا جان لیوا حالات، پیدائش کو روکنے کے اقدامات اور بچوں کو منتقل کرنا شامل ہو سکتے ہیں۔
ایغوروں کی ’نسل کشی‘ پر اقوام متحدہ میں بحث کی تحریک مسترد
کس کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟
اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن میں کہا گیا ہے کہ نسل کشی کے لیے منتخب رہنماؤں سمیت ہر کسی کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور سزا دی جا سکتی ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کو نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے کا اختیار حاصل ہے۔ اس کے قوانین کے مطابق کوئی بھی شخص، جو نسل کشی کا ارتکاب کرتا ہے، حکم دیتا ہے، مدد کرتا ہے اور یہاں تک کہ نسل کشی پر اکساتا ہے تو اس پر بھی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
ہیگ میں علیحدہ سے قائم کی گئی بین الاقوامی عدالت برائے انصاف میں ریاستوں کے درمیان تنازعات سے نمٹا جاتا ہے اور اس عدالت کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار بھی ہےکہ ریاستیں نسل کشی کی ذمہ دار ہیں۔
روس یوکرین میں ’نسل کشی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے، جو بائیڈن
نسل کشی ثابت کرنا آسان نہیں
ہیگ میں مقیم بین الاقوامی قانون کی ماہر ویلیری گیبارڈ نے کا کہنا ہے، ''بہت زیادہ عام زبان میں نسل کشی کی اصطلاح کو لوگ سب سے بڑے اور سنگین جرم کا حوالہ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ کسی نہ کسی طرح یہ جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم سے بھی بدتر لگتا ہے۔‘‘ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''لیکن قانونی طور پر دیکھا جائے تو نسل کشی کی تعریف بہت محدود ہے۔‘‘
انہوں نے کہا،''یہ تعداد کا معاملہ نہیں، جو فیصلہ کرے کہ نسل کشی ہوئی ہے یا نہیں۔ کسی گروہ کو جسمانی طور پر ختم کرنے کا ارادہ اس جرم کا بنیادی معیار ہے۔‘‘
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ''خصوصی ارادے‘‘کو ثابت کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ اکثر اس کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں ہوتا ہے۔
لندن کی مڈل سیکس یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ولیم شاباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نسل کشی کے ارادے کو ثابت کرنے میں مسئلہ یہ ہے کہ آپ شاید مجرموں کو عدالت میں براہ راست داخلہ نہیں دیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،''لہٰذا عدالتوں کو ان کے طرز عمل کی بنیاد پر مجرموں کے ارادے کا اندازہ لگانا پڑتا ہے۔ اس لیے آپ کو حالات پر مبنی شواہد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور اصول یہ ہے کہ اسے معقول شک سے بالاتر ہونا چاہیے۔ یہیں سے یہ مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
سونیا پھالنیکر، منیر غائدی ( ش ر ⁄ ا ا)