پاکستان:پی ٹی آئی اور وفاقی حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز
23 دسمبر 2024پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق تازہ ترین پیش رفت اسپیکر ایاز صادق کے مشورے پر سامنے آئی، جن سے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے رابطہ کیا تھا۔ صادق نے حکومتی کمیٹی کی تشکیل کا خیرمقدم کرتے ہوئے آج پیر کو اپنے چیمبر میں اجلاس طلب کیا۔
شہباز شریف نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی
اسپیکر نے کہا کہ وزیراعظم کا مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا اقدام خوش آئند ہے اور انہوں نے حکومت اور اپوزیشن کو نیک نیتی سے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر کے دفتر کے دروازے اراکین کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔
ایاز صادق کا کہنا تھا، "مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہی پیش رفت حاصل کی جا سکتی ہے۔"
پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے کیا حاصل کر سکتی ہے؟
شہباز شریف نے بات چیت کے لیے جو آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اس میں اسحاق ڈار، رانا ثنا اللہ، راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، خالد مقبول صدیقی اور چوہدری سالک حسین شامل ہیں۔ جب کہ تحریک انصاف کی کمیٹی میں عمر ایوب خان، علی امین گنڈاپور، سلمان اکرم راجہ، اسد قیصر، حامد رضا، حامد خان، اور علامہ راجہ ناصر عباس شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے رواں ماہ کے اوائل میں ٹیم تشکیل دی تھی۔
اختلافات دور کرنے کی کوشش
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب پاکستان فوج نے ہفتے کو اعلان کیا تھا کہ نو مئی 2023 کے واقعات میں ملوث 25 افراد کو فوجی عدالت میں دو سے 10 سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
پی ٹی آئی نے فوجی عدالتوں کی جانب سے ان واقعات میں ملوث افراد کو سنائی گئی سزاؤں کو آئین اور قانون سے متصادم قرار دے کر چیلنج کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے قومی ہم آہنگی کے لیے اسپیکر کی کوششوں کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات میں قومی یکجہتی اور قومی مفادات کو مقدم رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارے وجود کی وجہ ہے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ تمام معاملات کم سے کم وقت میں حل ہو جائیں گے۔
امیدیں اور توقعات
مذاکرات کے لیے عمران خان نے اپنے دو مطالبات سامنے رکھے تھے: زیر سماعت سیاسی قیدیوں کی رہائی اور 9 مئی کے واقعات اور 26 نومبر کو پی ٹی آئی کے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کی عدالتی تحقیقات۔ سابق وزیر اعظم نے بصورت دیگر سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی وارننگ دی تھی۔
حکومتی فریق اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر یہ کہتے ہوئے اپنے پاؤں گھسیٹ رہا تھا کہ مذاکرات پیشگی شرائط کے ساتھ اور کسی خطرے کے سائے میں نہیں ہو سکتے۔
سیاسی ماہرین نے شکوک و شبہات اور امید کے امتزاج کے درمیان، اس پیش رفت کی تعریف کی ہے لیکن اعتماد سازی کے فوری اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کو تعطل کو ختم کرنے اور استحکام کے لیے حقیقی عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے بنیادی مطالبات کیا ہیں اور کیا ان کے پورا ہونے کی کوئی توقع ہے؟
سیاسی ماہرین نے ایسے اقدامات پر زور دیا، جس سے بیان بازی کو کم کیا جاسکے اور سیاسی گرما گرمی کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کو یقینی بنایا جاسکے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ باضابطہ بات چیت کا آغاز ایک اہم موڑ ہے اور سیاسی منظر نامے کو پرسکون کرنے کے لیے تمام ترکوششیں کی جانی چاہئیں۔
ج ا ⁄ ر ب (خبر رساں ادارے)