کراچی میں لانگ مارچ کے شرکاء کی گرفتاریاں
12 مارچ 2009کراچی شہر سے روانہ ہونے والے قافلہ کو پولیس کی بھاری نفری نے ٹول پلازہ پر روک لیا اور بعد میں وکلاء رہنما منیر اے ملک، جسٹس رشید اے رضوی اور بعض خواتین وکلاء سمیت جماعت اسلامی، تحریک انصاف، سنی تحریک، مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے تھانوں میں منتقل کردیا۔ لاڑکانہ، سکھر، شکار پور، حیدر آباد سمیت صوبہ سندھ کے مختلف شہروں سے بھی وکلا کے قافلے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوگئے ہیں۔
ادھر وکلا کی گرفتاریوں کے بعد سپر ہائی وے سہراب گوٹھ کے علاقے میں نامعلوم افراد کے درمیان فائرنگ شروع ہوگئی، گاڑیوں پر پتھراؤ کیا گیا جبکہ جامشورو میں بھی لانگ مارچ کے شرکاء نے پولیس کی جانب سے روکنے پر بطور احتجاج گاڑی کو آگ لگادی۔
پولیس نے صورتحال سے نمٹنے کے لئے اضافی نفری اور رینجرز کو بھی طلب کرلیا۔ لانگ مارچ کا آغاز آج کراچی اور کوئٹہ سے بیک وقت کیاگیا۔ صبح جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما پروفیسر غفور احمد اور دیگر رہنماء سندھ ہائی کورٹ پہنچے تو پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا اس موقع پر وہاں جمع ہونے والے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور وکلا پر سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے لاٹھی چارج کیا اور متعدد کو گرفتار کرلیا۔ لانگ مارچ میں شریک افراد عدلیہ کی بحالی اور صدر آصف زرداری کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔
سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر رشید اے رضوی نے اپنی گرفتاری کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وکلاء گرفتاریوں اور لاٹھی چارج سے خوف زدہ نہیں ہیں اورگرفتاریاں وکلاء کی فتح ہیں۔
سٹی پولیس چیف وسیم احمد کا کہنا ہے کہ شہر میں دفعہ441 نافذ ہے لہٰذا وکلاء یا سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو مظاہرے یا کسی مارچ کی اجازت نہیں دی جاسکتی اورخلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
کراچی شہر میں بھی اہم سرکاری عمارتوں پر رینجرز اہلکار تعینات کردیئے گئے ہیں۔ جبکہ پولیس گزشتہ دو روز سے سیاسی اور وکلاء رہنماؤں کے گھروں پر ان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مار رہے ہیں ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پولیس چھاپوں کے دوران ان کے اہل خانہ کو بھی ہراساں کررہی ہے۔