کوئٹہ حملہ کی ذمہ داری ’را‘ پر ڈال دینا کافی نہیں، اچکزئی
10 اگست 2016محمود خان اچکزئی نے گزشتہ روز پارلیمنٹ میں ایک دھواں دار تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ صرف بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کو کوئٹہ حملے کا ذمہ دار قرار دے دینا کافی نہیں ہے، یہ حملہ پاکستان کی اپنی انٹیلیجنس کی ناکامی ہے۔ اچکزئی نے الزام عائد کیا کہ پاکستان میں خفیہ ایجنسیاں سیاست دانوں کی سرگرمیوں پر تو نظر رکھتی ہیں لیکن دہشت گردوں پر نظر نہیں ہے، جو آزادی سے پھرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی تقریر میں وزیراعظم سے بھی مطالبہ کیا کہ اگر سکیورٹی اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار کوئٹہ حملے میں ملوث عناصر تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں تو انہیں برطرف کر دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف اور نواز شریف کو کوئٹہ علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ساتھ جانا چاہیے تھا۔
محمود خان اچکزئی کے اس بیان کے حوالے سے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہو، وہ انٹیلجنس کی ناکامی ہی ہوتا ہے لیکن ہمیں دہشت گردوں کے ان سینکڑوں منصوبوں کو بھی دیکھنا چاہیے جن پر خفیہ ایجنسیوں کی کامیاب کارروائی کی وجہ سے عمل نہیں ہو پاتا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور پاکستان کا دشمن طاقت ور ہے اور اس کے پاس وسائل بھی زیادہ ہیں، اس لیے ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ دہشت گرد حملے کرنے کی کوشش میں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ محمود خان اچکزئی پہلے بھی متنازعہ بیانات دے چکے ہیں۔ جنرل امجد شعیب نے کہا، ’سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دشمن پاکستان کی فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان فاصلے بڑھانا چاہتا ہے، ہمارے لیڈران کو اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے‘۔
محمود خان اچکزئی نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ کوئٹہ میں ہر جگہ ایف سی کے اہلکار موجود ہیں، پھر کیسے حملہ آور بلوچستان ہائی کورٹ کے صدر کو ہلاک کرنے اور پھر سول ہسپتال پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ سینیئر صحافی مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں محمود خان اچکزئی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا،’’اگر یہ بیان کسی اور وقت دیا جاتا تو اس پر اتنی تنقید نہ کی جاتی۔ اس بیان میں کافی باتیں غور طلب بھی ہیں لیکن ان کے اس قسم کے بیان کی ٹائمنگ درست نہیں ہے۔ ایسے واقعات کے بعد ہمیں اتفاق اور اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘‘
مظہر عباس نےکہا کہ اچکزئی دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ بھی اس حملے میں ملوث تھی تو اسے روکنا سکیورٹی اور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی ذمہ داری تھی لیکن یہ بیان انہوں نے جلد بازی میں دیا ہے۔ مظہر عباس نے کہا،’’کسی ایسے ناخوش گوار واقعے کے بعد ہمیں جلد بازی میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہیے، ہم نے دیکھا کہ دو مختلف گروہوں نے کوئٹہ حملے کی ذمہ داری قبول کی، اس لیے تحقیقات کو بھی وقت دینا چاہیے اور سیاسی رہنماؤں کو ردعمل دینے میں بھی وقت لینا چاہیے، ابھی تحقیقات شروع نہیں ہوتیں اور ہم مطالبہ کر دیتے ہیں کہ بتایا جائے، کون ملوث تھا۔‘‘
تجزیہ کار امتیاز گل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا،’’محمود خان اچکزئی نے اچھی خواہشات کا اظہار کیا ہے اور مطالبے بھی ٹھیک ہیں لیکن ایک سیاسی خلاء میں ایسے مطالبوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔‘‘
امتیاز گل نے کہا:’’دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیاں کام کرتی ہیں لیکن ماسٹر مائنڈ تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ انٹیلنجس ایجنسیوں سے پوچھ گچھ ہونی چاہیے لیکن یہ کہنا کہ اگر وہ برقت نہ پکڑے جائیں تو انہیں برطرف کر دیا جائے، یہ ممکن نہیں ہے۔ امریکا میں نائن الیون کا واقعہ ہوا تھا لیکن کسی خفیہ ایجنسی کے افسر کو گرفتار کیا گیا، نہ برطرف کیا گیا، کئی سال وہ اسامہ بن لادن کے پیچھے پڑے رہے اور بالآخر اسے پکڑ لیا۔‘‘