'کووڈ وبا کے دوران ماسک اور سماجی دوری غیرضروری تھی': رپورٹ
3 دسمبر 2024امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق کووِڈ انیس کا سبب بننے والا وائرس، سارس کوو۔ ٹو وائرس چین میں ووہان کی لیبارٹری سے نکلا ہے۔ اسے گین آف فنکشن نامی تحقیق کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ اس تحقیق میں وائرس کو مزید خطرناک بنایا جاتا ہے تاکہ اس سےبچاؤ کے طریقے تلاش کیے جا سکیں۔
520 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ماسک پہننے اور سماجی دوری جیسے ضابطوں پر بھی تنقید کی گئی ہے۔
کووڈ اور مہنگائی کے سبب ایشیا کے کروڑو ں افراد غربت کا شکار
رپورٹس بتاتی ہیں کہ 2019 کے آخر میں ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کے کچھ محققین کووڈ جیسی علامات والی بیماری میں مبتلا تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں کوئی سرکاری اطلاع نہیں تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 'اگر یہ وائرس قدرتی طور پر پھیلتا تو اس کے شواہد اب تک مل چکے ہوتے‘۔ اس میں ووہان کی گوشت مارکیٹ سے وائرس پھیلنے کے دعوے کو بھی مسترد کر دیا گیا ہے۔
چین میں کووڈ کے کیسز میں اضافے پر عالمی ردعمل
تاہم اس مسئلے پر سائنسدانوں اور تنظیموں کی رائے منقسم ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور بہت سے سائنس دان وائرس کے قدرتی پھیلاؤ پر اصرار کرتے ہیں۔ لیکن 2022 میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ میں لیب سے وائرس کے لیک ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر فاوسی پر سوال
تحقیقاتی رپورٹ میں امریکی امیونولوجسٹ ڈاکٹر انتھونی فاوسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ فاوسی پر لیب لیک تھیوری کو دبانے کی کوشش کرنے کا الزام ہے۔
ڈاکٹر فاوسی نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے جون میں پینل کے سامنے کہا تھا کہ ووہان کی لیب میں زیر مطالعہ وائرس سارس کوو 2 نہیں بن سکتا۔
کیا کووڈ انیس کا وائرس چینی لیبارٹری میں تیار کیا گیا؟
گواہی کے دوران، فاوسی نے کہا تھا کہ سوشل ڈسٹینسنگ یا معاشرتی دوری کے ابتدائی اصول "یوں ہی بنائے گئے" تھے۔ اس بیان کو اس بات کا ثبوت سمجھا گیا کہ یہ رہنما اصول مضبوط سائنسی بنیادوں پر مبنی نہیں تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی قومی ادارہ صحت نے ووہان لیب کے گین آف فنکشن ریسرچ کے لیے مالی اعانت فراہم کی تھی۔ اس مسئلے نے امریکہ میں سائنسی تحقیق کی نگرانی کے حوالے سے ایک بڑی بحث کو جنم دیا ہے۔
صحت عامہ کے اقدامات پر تنقید
رپورٹ میں کووڈ انیس کی وبا سے نمٹنے کے لیے اپنائے گئے بہت سے اقدامات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس میں کہا گیا کہ ماسک پہننا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں "غیر موثر" ہے اور کہا گیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی اور ذہنی پریشانیاں اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئیں۔
سماجی دوری کے چھ فٹ کے اصول کو بھی "سائنسی طور پر بے بنیاد" قرار دیا گیا۔
تاہم رپورٹ میں آپریشن وارپ اسپیڈ کی تعریف کی گئی ہے۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ کا ایک اقدام تھا، جس میں ویکسین تیزی سے تیار کی گئی۔ اسے ایک "بڑی کامیابی" قرار دیا گیا۔
رپورٹ میں اسکول بند کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اس سے بچوں کی تعلیم اور دماغی صحت پر طویل مدتی اثر پڑے گا۔
اس رپورٹ نے وبائی مرض سے نمٹنے کے حوالے سے پہلے سے جاری سیاسی تنازعہ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ جہاں ڈیموکریٹس نے ان اقدامات کو ضروری قرار دیا وہیں ریپبلکنز نے انہیں غلط فیصلوں کا نتیجہ قرار دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کے چیئرمین بریڈ وینسٹرپ کا کہنا تھا کہ "اس کام کا مقصد اگلی وبا کو روکنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہونے کی صورت میں ملک تیار ہے۔"
انہوں نے کہا کہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ایمانداری اور شفافیت ضروری ہے۔
آگے کا راستہ
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کووڈ 19 کے پہلے کیس رپورٹ ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں۔ اس وبا نے امریکہ میں 11 لاکھ لوگوں کی جان لے لی اور پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ایشیا میں اس وبا کی وجہ سے کروڑوں لوگ غربت کا شکار ہو گئے۔
اس رپورٹ پر اس ہفتے ووٹنگ ہونی ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا اس سے نئی پالیسیاں سامنے آئیں گی۔ رپورٹ میں صحت کے بحران کے دوران امریکی تحقیقاتی فنڈنگ اور ایجنسیوں کے درمیان بہتر ہم آہنگی پر زور دیا گیا۔
تاہم اس تحقیقات کی رپورٹ نے وبا کے آغاز اور صحت عامہ کے اقدامات پر بحث کو مزید تیز کر دیا ہے۔ یہ رپورٹ سوال اٹھاتی ہے کہ دنیا اگلی وبائی بیماری کے لیے کتنی تیار ہے۔ جوابات تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
ج ا ⁄ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)