ناسا کے خلائی جہاز کی سورج کے انتہائی قریب پہنچنے کی کوشش
24 دسمبر 2024لندن سے 24 دسمبر بروز منگل خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹ کے مطابق ناسا کا ایک خلائی جہاز تقریباً 700,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے بڑھتے ہوئے اور 982 ڈگری سیلسیس تک کے درجہ حرارت کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور اپنے اس مشن میں کامیابی حاصل کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دے گا۔
خلائی ایجنسی ناسا کی ویب سائٹ پر تحریر کردہ اطلاعات کے مطابق ناسا کی پارکر سولر پروب کے اس مشن کا مقصد سورج کو چھو کر سائنسدانوں کو اس ستارے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
ناسا کے یوروپا کلپر مشن سے منسلک پاکستانی سائنسدان
کرسمس کے موقع پر ناسا پارکر سولر پروب اس کی سطح سے 3.6 ملین میل بلندی پر پہنچنے کا اب تک کا ریکارڈ توڑ دے گا۔ سائنسدانوں کو امید ہے کہ اس مشن سے یہ پتا چلے گا کہ شمسی سرگرمیوں کے پیچھے کون سے عوامل کارفرماں ہیں اور یہ کہ سورج کا بیرونی حصہ جسے کورونا کہا جاتا ہے، اُپنی سطح سے زیادہ گرم کیوں ہے؟ اس کے علاوہ اس مشن کی مدد سے سورج سے نکلنے والی شعاعوں اور طاقت ور انرجی کو بھی بہتر سمجھنے کا موقع ملے گا۔
ایکس پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں، ناسا کی ایک اہلکار نکی فاکس نے اس مشن کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا،''سورج کے انتہائی قریب پرواز کرکے پارکر سولر پروب براہ راست شمسی ہوا کی پیمائش کر سکتا ہے اور یہ شمسی ہوا کی ابتدا اور ان سورج سے آنے والی شدید شعاؤں کو سمجھنے میں ہماری مدد کرے گا۔‘‘
سیارچے خلائی تحقیق میں اتنی اہمیت کے حامل کیوں؟
ناسا کی اہلکار نے مزید کہا،''پہلے سے کہیں زیادہ سورج کے قریب پہنچ کر، پارکر سولر پروب ہمارے سیارے کے بارے میں راز افشا کرے گا جو ہماری ٹیکنالوجی کی حفاظت میں مدد کر سکتا ہے۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ اس مشن کے دوران ناسا کا یہ خلائی جہاز زمین کے ساتھ رابطے میں نہیں رہ پائے گا۔ سورج سے قریب ہونے کے سبب زمین کے ساتھ سگنل ٹرانسمیشن میں رکاوٹیں رہیں گی۔ سائنسدان فی الحال اس مشن کی جانب سے ملنے والے سگنل کے منتظر ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ سگنل 27 دسمبر تک مل سکے گا۔
جب سے خلائی جہاز 2018ء میں لانچ کیا گیا تھا، اس نے آہستہ آہستہ سورج کے قریب دائرہ بنایا۔ پرواز کے دوران اس سیارے کی کشش ثقل کی مدد سے ایک سخت مدار میں داخل ہونے کے لیے اسے زہرہ سے گزرنا پڑا تھا۔
ک م/ ر ب (ڈی پی اے)