ہیرا منڈی، بالی وڈ پاکستان کی حقیقی تصویر کشی میں ناکام؟
11 مئی 2024پاکستانی ڈرامہ نگار فائزہ افتخار نے سوشل میڈیا پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا، ”ساڑھی، غرارہ اور جھومر پنجاب کی ثقافت نہیں ہیں اور اس زمانے میں تو پنجاب تک آئے بھی نہیں ہوں گے، تب فیشن گلوبل نہیں ہوتا تھا، ہر علاقے کا مخصوص رجحان ہی فیشن کہلاتا تھا۔ طوائف کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ، انارکلی فراک اور جھومر ان کے سٹیریو ٹائپ دماغوں کا خناس ہے۔"
پاکستان میں بالی وڈ فلموں کو جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے لیکن اکثر شائقین کو شکوہ رہتا ہے کہ جب بھی انڈین فلموں میں پاکستان کا ماحول دکھایا گیا بیشتر مواقع پر وہ حقیقت سے دور اور اسٹیریو ٹائپ ہی رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو نے بالی وڈ فلموں میں پاکستان کی غیر حقیقی عکاسی کی تاریخ اور اس کی وجوہات کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔
جب پاکستان کا ذکر 'ودیشی ہاتھ‘ اور 'پڑوسی ملک‘ سے کیا جاتا تھا
معروف فلمی نقاد اور لکھاری شبھرا گپتا کے مطابق، ”1999 کی عامر خان سٹارر 'سرفروش‘ وہ پہلی نان وار ہندی فلم تھی جس میں نام لے کر پاکستان کا بطور دشمن ذکر کیا گیا۔ اس سے پہلے پاکستان کا ذکر 'ودیشی ہاتھ‘ یا 'پڑوسی ملک‘ جیسے الفاظ سے کیا جاتا تھا۔"
مصنف اور فلم نقاد ظفر سید ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”انڈیا ایک طویل عرصے تک نہرو کے خیالات کی عملی تصویر تھا اور فلمیں آزادی، خودمختاری اور سانجھے معاشرے کی بات کرتی رہیں۔ یہ صورتحال نوے کی دہائی میں تبدیل ہونا شروع ہوئی جب مذہبی منافرت مین سٹریم سیاست اور میڈیا کا حصہ بنی، اس نے سینما کو بھی متاثرہ کیا۔"
وہ اپنی بات واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”گرم ہوا (1973) میں سلیم مرزا (بلراج ساہنی) سیٹھ سے قرض لینے جاتے ہیں تو وہ عذر کرتا ہے کہ حالات ٹھیک نہیں، بہت سے لوگ قرض چکائے بغیر پاکستان چلے گئے۔ جواب میں سلیم مرزا کہتا ہے 'جو بھاگے ہیں ان کے کیے کی سزا انہیں کیوں دی جائے جو نہ بھاگے ہیں نہ بھاگنا چاہتے ہیں۔‘ یہ اس معاشرے کی منظر کشی ہے جس میں سب برابری کی بنیاد پر آگے بڑھ سکتے تھے۔ تب انڈین نیشنل ازم تھا جو بتدریج ہندو نیشنل ازم میں تبدیل ہوتا گیا۔"
کارگل کی جنگ اور بالی وڈ کی پاکستان سے بڑھتی دلچسپی
فلمی ناقدین کے مطابق 1999 کی کارگل جنگ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کے ساتھ ساتھ سینما کو بھی متاثر کیا۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے مصنفہ اور نقاد رابعہ الربا کہتی ہیں، ”فلم ساز بھی نئے آ رہے تھے اور آڈینس بھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے تقیسم کے نتیجے میں ہونے والی تباہی نہیں دیکھی تھی اس لیے ان کا رویہ یکسر مختلف تھا۔ یہ زیادہ بے رحم تھے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے برعکس یہاں بالی وڈ ریاستی سیاست کا حصہ بنتا نظر آیا۔"
1999 کی کارگل جنگ کے آس پاس درجن سے زائد ایسی فلمیں ریلیز ہوئیں جن کا موضوع پاکستان اور انڈیا کے تعلقات تھے۔ ان میں سے بعض وار اور بعض سوشل ڈرامہ ٹائپ فلمیں تھیں جن میں ارتھ، غدر: اک پریم کتھا، کریکنگ انڈیا، باڈر، مشن کشمیر زیادہ نمایاں ہیں۔
2001 کی فلم 'غدر: اک پریم کتھا‘ میں ایک سکھ ٹرک ڈرائیور پاکستان کی مسلمان لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور بالآخر دونوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ یہ انڈیا کی مقبول ترین فلموں میں سے ایک ہے۔
بحثیت مجموعی فلم کا پیغام مثبت سہی لیکن یہاں بھی غیر حقیقی عکاسی سے دامن نہ چھڑایا جا سکا۔ امریش پوری ایک پنجابی مسلمان اشرف علی کا کردار ادا کرتے ہیں جن کے سر پہ ہر وقت جناح کیپ دھری رہتی ہے جو انتہائی مضحکہ خیز لگتی ہے۔
مودی حکومت اور اینٹی پاکستان فلموں کی بہتات
ماہرین کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان کا جتنا ذکر بالی وڈ فلموں میں ہوا یہ ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
اس رجحان کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن ظفر لکھتے ہیں، ”انٹرنیشنل مووی ڈیٹا بیس آئی ایم ڈی بی نے بھارتی فلم سازوں کی تیار کردہ 35 ایسی فلموں کی فہرست تیار کی ہے جو مختلف موضوعات کے ساتھ پاکستان کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان میں سے 28 فلمیں 2014 میں نریندر مودی کے بھارت کے وزیر اعظم بننے کے بعد ریلیز ہوئیں۔"
ظفر سید کہتے ہیں، ”گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان کے خلاف شدت پسند نقطہ نظر رکھنے والی بالی وڈ بنیں۔ ان کا مقصد پاکستانی معاشرے کی عکاسی کے بجائے اپنا بیانیہ بیچنا ہے۔ پہلے ویر زارا جیسے فلمیں بھی بنتی تھیں جن میں پاکستان اور پاکستانیوں کا مثبت امیج پیش کیا جاتا تھا۔"
مثبت امیج کے باوجود 'ویر زارا‘ پاکستان کی غیر حقیقی عکاسی کے باعث تنقید سے نہ بچ سکی تھی۔ معروف صحافی عارف وقار کے مطابق ”لاہور کا باشندہ ہونے کے ناطے مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ فلم (ویر زارا) میں لاہور کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ پنجاب کے اس شہر کی جیتی جاگتی زندگی سے اخذ نہیں کیا گیا بلکہ ہندوستان کی ان پرانی فلموں سے حاصل کیا گیا ہے جو 'مسلم سوشل‘ فلمیں کہلاتی تھیں اور جن میں لوگ انگرکھے، شیروانیاں اور آڑی ترچھی ٹوپیاں پہن کر 'آداب عرض، آداب عرض‘ کی رٹ لگائے رکھتے تھے۔"
بالی وڈ پاکستان کی حقیقت سے قریب عکاسی کرنے میں ناکام کیوں رہتا ہے؟
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے آرٹ کریٹک فرقان مجید کہتے ہیں، ”بعض اوقات بالی وڈ فلم سازوں کے اپنے ذہن میں پاکستان کی درست شبیہ نہیں ہوتی، 2004 میں ایک انڈین ڈیلیگیشن پاکستان آیا، وہ لاہور دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ معاشرہ اتنا ترقی یافتہ ہے۔ ان کے ذہن میں پاکستان کا وہ امیج تھا جو انہوں نے بالی وڈ فلموں میں دیکھا۔ اگر فن سے جڑے لوگوں کی یہ حالت تھی تو عام شائقین کی پاکستان کے بارے میں معلومات کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں، ”بالی وڈ کی ٹارگٹ آڈینس انڈیا کی عوام ہے جو پاکستان کے بارے میں بہت کم جانتی۔ اس لیے وہ اپنے سامعین کی توقعات، معلومات اور پاکستان کے بارے میں امیج ذہن میں رکھتے ہوئے کسی کردار کو پیش کرتے ہیں۔"
اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے ظفر سید کہتے ہیں، ”سبز رنگ کے در و دیوار،سر پہ ٹوپی، آنکھ میں سرمہ، کندھے پہ رومال، انڈین شائقین کے ذہن میں ایک پاکستانی کا یہی امیج نقش ہے، عین ممکن ہے بالی وڈ فلم ساز پاکستان کی درست شبیہ پیش کریں تو ان کی آڈینس اسے قبول ہی نہ کرے۔ اس لیے وہ حقیقت سے قریب عکاسی کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
اگر کروڑ بندہ فلم یا ویب سیریز دیکھ رہا ہے، ان میں پاکستانی شائقین بمشکل چند لاکھ ہوں، ان میں سے کتنے باریک بینی سے ایسی جزیات کا مشاہدہ کریں گے؟ چند ہزار۔ کروڑوں کی مارکیٹ میں چند ہزار کی رائے بالی وڈ فلم سازوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لیے انہوں نے کبھی پاکستان کی درست شبیہ کو اہمیت نہیں دی۔"