جزیرہ نما کوریا پر ’سب سے بڑی‘ فضائی مشقوں کا آغاز
11 اپریل 2014جنوبی کوريائی فضائيہ کے ايک ترجمان نے بتايا کہ ’ميکس تھنڈر‘ کے نام سے ہونے والی ان مشقوں ميں ايک سو تين طيارے اور قريب چودہ سو اہلکار شرکت کر رہے ہيں اور يہ مشقيں پچيس اپريل تک جاری رہيں گی۔ اس ترجمان نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا، ’’تعداد کے اعتبار سے ہمارے درميان ہونے والی يہ اب تک کی سب سے بڑی مشق ہے۔‘‘ ان جنگی مشقوں ميں امريکی ايئر فورس کے F-15, F-16 اور يو ايس ميرينز کے F-18 اور EA-18 طيارے جبکہ جنوبی کوريا کے F-15 لڑاکا طيارے حصہ ليں گے۔
جنوبی کوريائی فضائيہ کے ايک ترجمان کے بقول دونوں ملکوں کی فضائی افواج شمالی کوريا کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشيدگی کے تناظر ميں ممکنہ جنگی صورتحال ميں اپنی تياريوں کو مزيد مضبوط کريں گی۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ مشقيں حقيقی صورتحال ميں دشمنوں کے اہداف کو نشانہ بنانے سميت دشمن کے علاقے ميں ترسيلات مہيا کرنے جيسے عوامل پر مبنی ہيں۔
امريکا اور جنوبی کوريا کے درميان اسی طرز کی فضائی مشقيں ہر سال دو مرتبہ ہوتی ہيں۔ نومبر 2013ء ميں ہونے والی ايسی ہی فضائی مشقوں ميں دونوں ممالک کے کُل 97 طيارے اور قريب ايک ہزار فوجی شامل تھے۔
جمعہ گيارہ اپريل سے شروع ہونے والی ان مشقوں کا آغاز ايک ايسے وقت ہو رہا ہے، جب يہ دونوں ممالک اپنی مشترکہ زمينی مشقيں ختم کرنے کو ہيں۔ شمالی کوريا نے ان مشقوں کو ’اس پر قبضہ کرنے کی تياری‘ سے تعبير کيا ہے اور رد عمل کے طور پر پيونگ يانگ نے راکٹ اور ميزائل لانچ کے تجربات کيے۔
جنوبی اور شمالی کوريا کے مابين حاليہ کشيدگی کے سبب گزشتہ ماہ اکتيس مارچ کو دونوں کے مابين گولہ باری کا تبادلہ بھی ہوا۔ اس کے بعد پيونگ يانگ نے يہ دھمکی بھی دی کہ وہ کوئی نيا ايٹمی تجربہ کر سکتا ہے۔
امريکا، جاپان اور جنوبی کوريا نے شمالی کوريا کے اس بيلسٹک ميزائل کے تجربے کی مذمت کرتے ہوئے شمالی کوريا کو مزيد جارحيت سے باز رہنے کا کہا تھا۔ آئندہ پير کے روز امريکا، جاپان اور جنوبی کوريا کے وفود جزیرہ نما کوریا کی صورتحال پر ملاقات کر رہے ہيں۔