1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وزیر اعظم گیلانی کے خلاف مقدمے کی روزانہ سماعت کا فیصلہ

21 مارچ 2012

پاکستانی سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے ان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں پر کیے گئے اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے عدالتی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/14OYM
تصویر: dapd

بدھ کے روز وزیر اعظم کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں قائم سات رکنی بنچ سے وزیر اعظم کے خلاف مقدمے کی سماعت سے علیحدہ ہونے کی استدعا کی۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان ججوں نے دس جنوری کے چھ آپشنز والے فیصلے میں سخت زبان استعمال کی، جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے دلائل سننے سے پہلے ہی وزیر اعظم کو سزا دینے کے لیے ذہن بنا لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو اظہار وجوہ کا نوٹس دینے والے جج اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتے ۔ اس پر بنچ میں شامل ججوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر یہ بات مان لی جائے تو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے کی وجوہات درج ہی نہیں ہو سکیں گی۔ اس طرح تو ہر مرحلے کے لیے نیا بینچ بنانا پڑے گا، اس کے لیے پہلے توہین عدالت کے قانون کو چیلنج کر کے ختم کرانا ہو گا ۔

ججوں کے علاوہ اعتزاز احسن نے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق پر بھی اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو شخص بطور اٹارنی جنرل وزیر اعظم کی وکالت کرتا رہا، وہ اب بطور پراسیکیوٹر اسی معاملے میں وزیر اعظم کو سزا کیسے دلوا سکتا ہے۔ اعتزاز احسن نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کے فیصلوں سے آگاہ نہیں کیا۔

اعتزاز احسن کے مطابق فوجداری مقدمے میں اخباری خبروں کی بنیاد پر سزا نہیں سنائی جا سکتی اور وزیر اعظم این آر او سے متعلق عملدرآمد سے انکار نہیں کر رہے بلکہ صرف صدارتی عہدے کی مدت ختم ہونے تک مہلت مانگ رہے ہیں۔

بیرسٹر اعتزاز احسن
بیرسٹر اعتزاز احسنتصویر: AP

بعد ازاں سپریم کورٹ کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ ججوں کو اس مقدمے سے الگ ہونے سے متعلق دلائل کو اہمیت دینا ہوگی:’’ججوں پر اعتراض کی بنیادیں جو میں نے عرض کی ہیں، وہ ٹھوس ہیں، تکنیکی ہیں۔ دوسرا یہ ہے کہ آئین میں آرٹیکل A10 جب سے آیا ہے، اس سے قانون میں ایک بڑی اہم اور بنیادی تبدیلی یہ لایا ہے۔ شفاف ٹرائل بنیادی حق بن گیا ہے، ہر شہری کے لیے، سو اس کے بعد ان اعتراضات کو عدالت کو دیکھنا پڑے گا، فیصلہ کرنا پڑے گا۔‘‘

دریں اثناء وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہے، پارلیمنٹ، آزاد عدلیہ اور میڈیا موجود ہے، اس لئے کسی فکرکی ضرورت نہیں۔ اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں انہوں نے اپنے خلاف مقدمے کی کارروائی کو عدالتی معاملہ قرار دیتے ہوئے تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔ وفاقی کابینہ میں ردوبدل سے متعلق ایک سوال پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ معمول کی بات ہے۔ نیٹو سپلائی کے بارے میں وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ نیٹو کو رسدنہ کسی کے کہنے پر بند کی نہ کسی کے کہنے پر کھولیں گے، اس حوالے سے پارلیمنٹ کا فیصلہ حتمی ہوگا۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امجد علی