تین عرب ملکوں نے قطر سے اپنے سفیر واپس بلا لیے
5 مارچ 2014ان تینوں عرب ملکوں کا یہ فیصلہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ مصر اور مجموعی طور پر خطے میں اخوان المسلمون نامی اسلام پسند تحریک کے لیے دوحہ کی حمایت پر بہت ناخوش ہیں۔
دبئی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان تین عرب ملکوں نے قطر سے اپنے سفیر واپس بلانے کے فیصلے کا اعلان آج بدھ کو جاری کردہ ایک ایسے مشترکہ بیان میں کیا جو ان ملکوں میں سرکاری میڈیا سے بھی نشر کیا گیا۔ اس بیان میں قطر پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے خلیجی تعاون کی کونسل کے ایک علاقائی سکیورٹی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اس مشترکہ سرکاری بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ انہوں نے دوحہ سے اپنے سفیر واپس بلانے کا فیصلہ اپنی سلامتی کے تحفظ کی خاطر کیا ہے۔
خلیجی تعاون کی ++کی رکن ریاستوں کے طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے دوحہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی اس وقت شدید ہو گئی تھی جب 2011ء کے اوائل میں عرب اسپرنگ کہلانے والے عوامی مظاہروں کے دوران مصر میں صدر حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
حسنی مبارک سعودی عرب کے ایک قابل اعتماد اتحادی تھے اور وہ بھی اسلام پسند گروپوں کو اتنا ہی ناپسند کرتے تھے جتنا کہ انہیں سعودی عرب میں ناپسند کیا جاتا ہے۔ قطر کی طرف سے حسنی مبارک کے جانشین اور باقاعدہ جمہوری صدر منتخب ہونے والے محمد مرسی کے لیے کھلی مالی اور عوامی حمایت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کو پسند نہیں تھی۔
محمد مرسی کے لیے قطر کی طرف سے حمایت پر سعودی اور یو اے ای کے حکمران اس لیے ناراض تھے کہ مرسی کا تعلق اخوان المسلمون سے تھا اور اس اسلام پسند تحریک سے متعلق قطر کی سیاست ان ملکوں کی سیاسی پالیسیوں سے متصادم تھی۔ پھر جب مصر میں فوج نے گزشتہ جولائی میں محمد مرسی کو معزول کر دیا تو قطر نے مرسی کی معزولی کی باقاعدہ طور پر مذمت کی تھی، جو متحدہ عرب امارات، بحرین اور سعودی عرب کے حکمرانوں کو پسند نہیں آئی تھی۔
آج بدھ کے روز سفیروں کی واپسی کا فیصلہ کرنے کے بعد جو بیان جاری کیا گیا، اس میں کہا گیا کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی اس علاقائی سکیورٹی معاہدے کا احترام کرنے میں ناکام رہے ہیں جو گزشتہ نومبر میں سعودی عرب میں طے پایا تھا۔
بیان کے مطابق نومبر 2013ء میں سعودی عرب میں طے پانے والا معاہدہ ریاض میں کویت کے امیر کی موجودگی میں طے پایا تھا اور اس کی چھ ملکی خلیجی تعاون کی کونسل کے دیگر رکن ملکوں نے تائید کی تھی۔
جن تین عرب ریاستوں نے آج قطر سے اپنے سفیر واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے، ان میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے لیکن عملی طور پر متحدہ عرب امارات کے قطر متعینہ سفیر کئی مہینوں سے دوحہ میں موجود ہی نہیں تھے۔