1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

شام پر اسرائیلی فضائی حملے لازمی بند ہونے چاہئیں،اقوام متحدہ

20 دسمبر 2024

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے جمعرات کو کہا کہ شام پر اسرائیلی فضائی حملے اس ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں اور انہیں لازماﹰ بند ہونا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/4oOGp
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرشتصویر: REUTERS

رواں ماہ کے اوائل میں شام میں باغیوں کے ہاتھوں صدر بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل نے اس ملک پر سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں جن کا مقصد، اس کے بقول، اسٹریٹجک ہتھیاروں اور فوجی ڈھانچوں کو تباہ کرنا ہے۔

شام ميں آزاد و شفاف انتخابات ضروری ہيں، اقوام متحدہ

گوٹیرش نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا، "شام کی خودمختاری، علاقائی یک جہتی اور سالمیت کو مکمل طور پر بحال کیا جانا چاہیے اور جارحیت پر مبنی تمام کارروائیوں کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔"

اسرائیلی فوجی اسرائیل مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں اور شام کے درمیان واقع اس علاقے میں داخل ہو گئے ہیں، جسے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ایک معاہدے کے تحت غیر فوجی علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ اور جہاں اقوام متحدہ کے امن فوجی گشت کے لیے تعینات تھے۔

شام میں غیرملکی سفارتی سرگرمیوں میں تیزی

اسرائیلی حکام نے اس اقدام کو اسرائیل کی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے محدود اور عارضی قرار دیا ہے لیکن اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا کہ فوجیوں کو کب واپس بلایا جائے گا۔

اسرائیلی فوج اسرائیل مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں اور شام کے درمیان واقع بفر زون میں داخل ہوتے ہوئے
اسرائیلی فوج اسرائیل مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں اور شام کے درمیان واقع بفر زون میں داخل ہوتے ہوئےتصویر: Avi Ohayon/REUTERS

امید اور تاریخ کا لمحہ

گوٹیرش کا کہنا تھا "مجھے یہ واضح کرنے دیں کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والے علاقے میں اقوام متحدہ کے امن دستوں کے علاوہ کوئی اور فوجی موجود نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ حتمی بات ہے۔ اسرائیل اور شام کے درمیان جنگ کے خاتمے کے 1974 کے معاہدے کی شرائط کو برقرار رہنا چاہئیے جو مکمل طور پر نافذ العمل ہیں۔"

اسرائیلی فوج کو گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر رہنے کا حکم

انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی توجہ شام میں جامع، قابل اعتماد اور پرامن سیاسی منتقلی اور دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے امداد کے حصول پر مرکوز ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا، "یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے - امید اور تاریخ کا لمحہ ہے، لیکن یہ ایک بڑی غیر یقینی صورتحال بھی ہے۔"

گوٹیرش کا کہنا تھا، "کچھ کردار اپنے مقاصد کے لیے اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔"

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ شام کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ شام کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوںتصویر: Amr Abdallah Dalsh/REUTERS

شامی عوام کا ساتھ دینا بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری

گوٹیرش نے کہا،"یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ شام کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں جنہوں نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ شام کے مستقبل کی صورت گری ہم سب کے تعاون سے، اس کے عوام کے ذریعے، اس کے لوگوں کے لیے ہونی چاہیے۔"

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے میکسیکو کی ایک وکیل کارلا قنتانا کو شام میں لاپتہ افراد سے متعلق ایک آزاد ادارے کا سربراہ نامزد کیا اور کہا کہ ان کی ٹیم کو اپنے مینڈیٹ پر مکمل طور پر کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئیے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2023 میں یہ ادارہ قائم کیا تھا جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ شام میں لاپتہ ہونے والے افراد کے ساتھ کیا ہوا۔ اس کے ساتھ  ہی متاثرین، زندہ بچ جانے والوں اور ان کے خاندانوں کی مدد کرنا اس کے کام میں شامل تھا۔

دی ہیگ میں قائم لاپتہ افراد سے متعلق بین الاقوامی کمیشن نے کہا ہے کہ اسے موصولہ اعداد و شمار کے مطابق شام میں 66 تک غیر تصدیق شدہ اجتماعی قبریں موجود ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ شام کے نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس سمیت بین الاقوامی اور شامی تنظیموں کے مطابق وہاں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں۔

شام میں 2011 میں جمہوریت نواز پرامن مظاہرین کے خلاف اسد حکومت کی جانب سے پر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا، جس کے بعد لاکھوں افراد کو بیرون ملک فرار ہونا پڑا جبکہ مزید لاکھوں اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو گئے۔

بشار الاسد کے بعد شام کا مستقبل کیسا ہو گا؟

ج ا ⁄  ص ز (روئٹر‍ز)