1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

شام کی تازہ ترین صورتحال پر جی سیون ممالک کا تبادلہ خیال

13 دسمبر 2024

جی سیون ممالک کے رہنما شام میں ’جامع اور غیر فرقہ پرست‘ حکومت کی حمایت سے متعلق جمعے کو آپس میں مشاورت کر رہے ہیں۔ ادھر چین اور مصر نے شام کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے شامی خود مختاری کے احترام کا مطالبہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4o69L
دمشق میں شامی جنگجو
چین اور مصر نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے حصول کے لیے امن اور مذاکرات کو فروغ دینا بہت ضروری ہے تصویر: Aaref Watad/AFP

دنیا کی سات مضبوط ترین معیشتوں پر مشتمل جی سیون گروپ کے رہنما شام کی نئی حکومت سے متعلق مشترکہ موقف اختیار کرنے کی کوشش میں آج جمعہ 13 دسمبر کی شام ایک ورچوئل اجلاس میں شرکت کرنے والے ہیں۔

گروپ آف سیون کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ شام میں ’’جامع اور غیر فرقہ وارانہ‘‘ حکومت کو اقتدار کی منتقلی کی حمایت کرنے پر تیار ہیں۔

اسرائیل نے شام سے متعلق ایرانی رہنما کے بیانات کو مسترد کر دیا

اس سات ملکی گروپ نے شام میں خواتین اور اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے اور اس حوالے سے ایک بیان میں ’’اسد حکومت کو اس کے جرائم کے لیے جواب دہ بنانے کی اہمیت‘‘ پر بھی زور دیا۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ جی سیون شام کی کسی بھی ایسی حکومت کے ساتھ مل کر ’’کام کرے گا اور اس کی مکمل حمایت بھی کرے گا،‘‘ جو مذکورہ بالا اصولوں پر کاربند رہنے کا عہد کرے۔

شام میں بشار الاسد کا تختہ الٹنا امریکی اسرائیلی منصوبے کا نتیجہ ہے، خامنہ ای

چین کو شام کی صورتحال پر گہری تشویش

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنے مصری ہم منصب سے بات چیت میں کہا ہے کہ چین شام میں موجودہ پیش رفت پر ’’شدید فکر مند‘‘ ہے۔ وانگ یی نے مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی کے ساتھ بات چیت کے بعد صحافیوں کو بتایا، ’’دونوں ممالک کو شام کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش ہے اور ہم شام کی ریاستی خود مختاری کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘

وانگ یی نے یہ بھی کہا، ’’دہشت گردوں اور انتہا پسند قوتوں کو اس افراتفری کا فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لیے بھی کوششیں کی جانا چاہییں۔‘‘

اسد کے بعد اسرائیل اور شام کے لیے آگے کا راستہ کیا ہے؟

شام اور ترکی کی سرحد پر شامی پناہ گزین
بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ترکی میں مقیم بہت سے شامی پناہ گزین اپنے ملک لوٹنے کو بے تاب ہیں اور اس سلسے میں سرحد لوگوں کی قطاریں بھی دیکھی گئیں تصویر: Khalil Hamra/AP Photo/picture alliance

چینی وزیر خارجہ نے مصری ہم منصب بدر عبدالعاطی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا، ’’ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہمیں مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے حصول کے لیے امن اور مذاکرات کو فروغ دینا چاہیے۔‘‘

آمریتیں کتنی کمزور ہوتی ہیں

امریکی صحافی اور تاریخ دان این ایپل بام نے شام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شام کے آمر بشار الاسد کا اچانک زوال ’’ہر ایسے شخص کو، جو یہ تصور کرتا ہے کہ آمریتیں کسی نہ کسی طرح مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں، یہ دکھاتا ہے کہ وہ دراصل کتنی نازک اور کمزور ہوتی ہیں۔‘‘

شام میں ہر کسی کے لیے شخصی آزادی کی ضمانت، عبوری حکومت

ان کا کہنا تھا، ’’جس وقت لوگوں کو کمزوری کا احساس ہوتا ہے، جس لمحے وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی طاقت ختم ہو چکی ہے، اسی وقت ان پر بہت تیزی سے زوال آتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں یہ بات اس وقت ضرور یاد رکھنا چاہیے، جب ہم ایران، روس اور شمالی کوریا یا دنیا میں کہیں بھی اس طرح کی حکومتوں کے ساتھ کوئی معاملہ کر رہے ہوں یا ان سے متعلق کسی بھی چیز سے نمٹ رہے ہوں۔‘‘

انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ آمرانہ حکومتوں کے مابین اتحاد فطری طور پر غیر مستحکم ہوتا ہے۔

اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کے شام پر 300 حملے

ایپل بام کے مطابق، ’’روس، ایران، شام اور وینزویلا کے مابین کوئی مشترکہ نظریہ نہیں ہے۔ وہ بس مشترکہ مفاد کے تصور سے جڑے ہوئے ہیں۔ چاہے یہ منشیات کی تجارت میں مشترکہ مفاد ہو، تخریب کا مشترکہ مفاد، یا پھر اپنے آپ کو برقرار رکھنے کا مشترکہ مفاد۔ انہی وجوہات کے سبب وہ مل کر کام کرتے ہیں۔‘‘

اس امریکی ماہر تاریخ نے کہا، ’’وہ لمحہ جب ان میں سےکسی  ایک کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ دوسرا بہت کمزور یا غیر مؤثر ہے، یا مزید مدد نہیں کر سکتا، تو ان کے باہمی بندھن اسی وقت ٹوٹ جاتے ہیں۔‘‘

ص ز/ م م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

بشار الاسد کے بعد شام کا مستقبل کیسا ہو گا؟