عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، برطانیہ میں زیادہ اموات کا خدشہ
8 ستمبر 2024لینسیٹ گلوبل نامی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے ایک طبی تحقیق کے نتائج کے مطابق اس وقت سردی کی وجہ سے ہونے والی اموات گرمی کے باعث ہونے والی اموات سے زیادہ ہیں۔ اس ریسرچ کے بعد خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے بعد ایسی اموات کی سالانہ تعداد 2100ء تک تقریباﹰ 70 ہزار تک پہنچ جائے گی۔
تیس یورپی ممالک سے لیے گئے اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ موجودہ ماحولیاتی پالیسیوں کے باعث رواں صدی کے آخر تک یورپی براعظم میں گرمی سے ہونے والی انسانی اموات میں تین گنا تک اضافے کا خدشہ ہے اور ان کی سالانہ تعداد موجودہ 43729 سے بڑھ کر 128809 تک پہنچ جائے گی۔
دوسری جانب سردی کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد 2100ء تک معمولی کمی کے ساتھ 363,809 سے کم ہو کر 333,703 ہو جائے گی۔
یورپی کمیشن کے جوائنٹ ریسرچ سینٹر کے ایک ماہر خوآن کارلوس سِسکار کہتے ہیں، ''ہمارے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ اس صدی کے دوران سردی اور گرمی سے ہونے والی اموات کا تناسب ڈرامائی طور پر تبدیل ہوجائے گا۔ پورے یورپ میں گرمی سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہو گا جبکہ کچھ علاقوں میں یہ اضافہ شدید ہو گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان کے مرکز کی طرف سے مکمل کیا گیا مطالعہ 30 ممالک کے 1000 سے زائد خطوں کا جائزہ لے کر ایسے علاقوں کی نشاندہی کرنے میں مدد دیتا ہے، جہاں مقامی باشندے مستقبل میں گرمی میں اضافے سے شدید متاثر ہوں گے۔
اس تحقیق میں برطانیہ میں زیادہ گرمی سے ہونے والی اموات کی تعداد میں چھ گنا تک اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ یہ تعداد سالانہ 1258سے بڑھ کر 7931 تک پہنچ سکتی ہے۔ اسی طرح صرف برطانیہ میں ہی سردی سے ہونے والی اموات کی تعداد بھی موجودہ 64195 میں معمولی اضافے کے ساتھ رواں صدی کے آخر تک 64952 تک پہنچ جائے گی۔
اس ریسرچ میں یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ جمہوریہ آئرلینڈ میں ہر سال سخت سردی کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا اور ان کی تعداد آج سے قریب تین چوتھائی صدی بعد موجودہ 3974 سے 7696 تک پہنچ سکتی ہے۔ اسی طرح گرمی کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد بھی موجودہ 30 سے بڑھ کر 563 ہو جائے گی۔
یورپ میں سخت سردی سے ہونے والی اموات مشرقی یورپ اور بالٹک کی ریاستوں میں سب سے زیادہ ہیں جبکہ وسطی اور جنوبی یورپ کے کچھ حصوں میں سب سے کم۔ تاہم سخت گرمی سے ہونے والی اموات کی موجودہ تعداد برطانیہ اور اسکینڈے نیویا کے ممالک میں سب سے کم ہے جبکہ کروشیا اور یورپ کے جنوبی حصوں میں یہ سب سے زیادہ رہتی ہے۔
یورپی کمیشن کے مشترکہ تحقیقی مرکز سے تعلق رکھنے والے ایک اور ماہر ڈیوڈ گارسیا لیون کے مطابق ایسے خطوں اور افراد کے لیے مخصوص پالیسیوں کی فوری ضرورت ہے، جو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے خطرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔
لندن میں قائم اوپن یونیورسٹی کے ماحولیاتی نظاموں سے متعلقہ امور کی لیکچرر لیسلی میبون کہتی ہیں، ''اس تحقیق کے نتائج دنیا بھر میں مختلف مقامات پر مکمل کیے گئے گزشتہ تحقیقی جائزوں کے نتائج سے ہم آہنگ ہیں۔ ان سے تصدیق ہوتی ہے کہ شدید درجہ حرارت ہر ایک کو یکساں طور پر متاثر نہیں کرتا بلکہ بزرگ شہریوں اور کمزور سماجی طبقات کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔‘‘
میبون کے مطابق اس صورت میں ایسے عملی اقدامات زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں، جن کا ہدف ایسے انسان اور مقامات ہوں، جن کو ایسی ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہوں۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے، شدید گرمی اور شدید سردی سے نمٹنے کے لیے دور رس منصوبہ بندی کرنے اور رہائشی عمارات کے معیار کو اپ گریڈ کرنے سے بھی انسانی زندگیوں کو درپیش خطرات کو کم کرنے میں واضح مدد مل سکتی ہے۔
ح ف / ج ا (پی اے میڈیا، ڈی پی اے)