پاراچنار میں امدادی قافلے پر حملہ، متعدد افراد زخمی
4 جنوری 2025خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مسلح افراد نے ہفتے کے روز فرقہ وارانہ لڑائی کی وجہ سے باقی ماندہ پاکستان سے کٹ کر رہ جانے والے ضلع کرم کی جانب امدادی سامان لے کر جانے والے ایک قافلے پر حملہ کر دیا، جس میں کئی افراد زخمی ہو گئے۔ مقامی حکام کے مطابق تین روز قبل گو کہ فریقین کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، اس کے باوجود یہ خونریز واقعہ پیش آیا۔
پاکستان کے شمال مغرب میں صوبے خیبر پختوانخوا کا علاقہ کرم کئی دہائیوں سے سنی شیعہ تشدد کی زد میں ہے، لیکن گزشتہ نومبر میں لڑائی کی نئی لہر کے آغاز کے بعد سے اب تک وہاں تقریباً 200 افراد مارے جا چکے ہیں۔
بتایا گیا ہےکہ وہاں قبائل کے درمیان اس لڑائی میں مشین گنوں اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔
نومبر میں اپر کرم کی جانب جانے والی ایک مرکزی سڑک پر امدادی قافلے پر خونریز حملے کے بعد سے متاثرہ علاقے میں امدادی سامان کی فراہمی رکی ہوئی تھی۔ یکم جنوری کو جنگ بندی کے اعلان کے بعد ہفتے کو دوبارہ امدادی سامان اپر کرم کے علاقے کی جانب روانہ کیا گیا، تاہم اس بار بھی قافلہ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
مقامی حکومتی عہدیدار متعصم اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ کرم کے ڈپٹی کمشنر، دو دیگر انتظامی افسران، دو پولیس اہلکار اور فرنٹیئر کور کے دو سپاہی اس حملے میں زخمی ہوئے ہیں۔ اس اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح گیارہ بجے کیا گیا۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے ترجمان محمد علی سیف نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر ''نامعلوم شرپسندوں کے حملے‘‘ کا شکار ہوئے، لیکن ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد امدادی سامان کی ترسیل روک دی گئی۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ حملہ ''ایک سازش‘‘ تھا، جس کا مقصد نئے سال کے پہلے دن طے پانے والی جنگ بندی کو نقصان پہنچانا تھا، جس پر دونوں طرف کے قبائلی رہنماؤں کی مشاورتی مجلس نے اتفاق کیا تھا۔
انہوں نے کہا، ''شرپسند عناصر نے امن معاہدے کو نقصان پہنچانے کے لیے فائرنگ کی۔‘‘
پاکستان ایک سنی اکثریتی ملک ہے، لیکن شیعہ مسلمان مجموعی آبادی کا 10 سے 15 فیصد ہیں۔ کرم میں دونوں برادریاں ایک دوسرے کے ساتھ رہتی ہیں، مگر زمین کے تنازعات کی وجہ سے لڑائیاں اکثر فرقہ وارانہ تناؤ میں بدل جاتی ہیں۔
ع ت / م م (اے ایف پی)