پاکستانی فوجی عدالت نے مزید ساٹھ شہریوں کو سزائیں سنا دیں
26 دسمبر 2024پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعرات 26 دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان سویلین ملزمان پر یہ الزامات ثابت ہو گئے تھے کہ وہ نو مئی 2023ء کے روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے فوراﹰ بعد شروع ہونے والے مظاہروں اور ہنگاموں میں ملک کے مختلف حصوں میں فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث تھے۔
نو مئی اور فوجی عدالتیں: سپریم کورٹ آئینی بینچ کی مشروط ہاں
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ جن درجنوں ملزمان کو آج سزائیں سنائی گئیں، ان میں عمران خان کا ایک رشتہ دار اور دو ریٹائرڈ فوجی افسران بھی شامل ہیں۔
ان تقریباﹰ سبھی ملزمان کا تعلق عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ہے۔
موجودہ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ شہریوں کی مجموعی تعداد
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں کسی فوجی عدالت نے پچھلے سال نو مئی کے واقعات کے سلسلے میں سویلین ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں۔ ابھی چند روز قبل بھی ایسے ہی الزامات کے سلسلے میں 25 دیگر سویلین ملزمان کو بھی قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
اس طرح ملکی فوجی تنصیبات یا عسکری اہمیت کے حامل مقامات پر حملوں کے سلسلے میں فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے ملزمان کی مجموعی تعداد اب 85 ہو گئی ہے۔
پاکستان کی ان فوجی عدالتوں پر ملک کے اندر سے اور بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔
سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) فیض حمید پر فرد جرم عائد
گزشتہ برس نو مئی کو ہوا کیا تھا؟
گزشتہ برس نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف سیاسی کارکنوں کے عوامی احتجاج کے دوران پاکستانی فوج کی تنصیبات پر کئی مقامات پر جو حملے کیے گئے تھے، وہ پاکستان کی بہت طاقت ور سمجھی جانے والی فوج کے خلاف ایسا احتجاج تھا، جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
آج سنائی گئی سزاؤں کے بارے میں آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں کہا گیا، ''قوم، حکومت اور مسلح افواج اپنے اس عزم پر پوری طرح قائم ہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ریاست کی ناقابل تردید بالادستی ہر حال میں قائم رہے۔‘‘
نو مئی: فوج کے غصے اور خان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سنائی جانی والے سزاؤں کے بعد اب عمران خان کے سیاسی حامیوں میں یہ تشویش زیادہ ہو گئی ہے کہ پاکستانی فوج ان کے رہنما عمران خان کے خلاف مقدمات میں اور بھی زیادہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔
عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد سے اپنے خلاف درجنوں مقدمات کا سامنا ہے، جن میں ایسے مقدے بھی شامل ہیں کہ انہوں نے ملکی مسلح افواج کے خلاف حملوں کے لیے اشتعال انگیزی کی تھی۔
فوجی عدالتوں کی کارروائی پر بین الاقوامی تشویش
پاکستان میں عام شہریوں کے طور پر سیاسی کارکنوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں چلائے جانے والے مقدمات پر بین الاقوامی سطح پر بھی کافی زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔
امریکہ کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ اسے ان سزاؤں پر ''گہری تشویش‘‘ ہے جبکہ برطانوی دفتر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ سویلین ملزمان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے عمل میں ''شفافیت کا فقدان‘‘ ہے اور ''غیر جانب دارانہ جانچ پڑتال کی عدم موجودگی میں ایسے مقدمات کی درست اور منصفانہ کارروائی متاثر ہوئی ہے۔‘‘
اس کے علاوہیورپی یونین نے بھی ان سزاؤں پر تنقید کی ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ سزائیں ''پاکستان کی ان ذمے داریوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں، جو اس پر شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنوینشن کے تحت عائد ہوتی ہیں۔‘‘
پاکستانی حکومت کا موقف
پاکستان میں اسی تناظر میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بدھ 25 دسمبر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا، ''ان عدالتوں میں ملزمان کے خلاف منصفانہ قانونی کارورائی کے حق کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ ان کو وکلاء اور اپنے اہل خانہ تک رسائی حاصل ہے اور وہ عدالتی فیصلوں کے خلاف دو مرتبہ اپیل بھی کر سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک اپیل فوجی عدالت میں کی جا سکتی ہے اور دوسری ایک سویلین عدالت میں جو متعلقہ ہائی کورٹ ہو گی۔‘‘
سویلین افراد فوجی عدالتوں میں کیوں؟
عمران خان کے حامی کارکن اپنے خلاف قانون شکنی کے الزامات کی نفی کرتے ہیں جبکہ خود عمران خان کا بھی دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات سیاسی محرکات کے باعث دائر کیے گئے۔
دوسری طرف پاکستانی حکومت اور ملکی فوج دونوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ عمران خان یا ان کے حامیوں کے خلاف کوئی غیر منصفانہ سلوک یا کارروائی نہیں کی گئی۔
م م/ ا ب ا (روئٹرز، آئی ایس پی آر)