1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشام

جرمن وفد کی ہیئت التحریر الشام کے نمائندوں سے ملاقات

18 دسمبر 2024

برلن حکومت نے بھی برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے اسی طرح کے اقدامات کے بعد اسلام پسند گروپ ایچ ٹی ایس سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ یورپی یونین دمشق میں دوبارہ سفارتی سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان پہلے ہی کر چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/4oHqA
اسد کی معزولی کے بعد دمشق کے ایک اسکول میں پرچم کشائی
جرمن وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق منگل کی بات چیت کے ساتھ ساتھ وفد نے "دمشق میں جرمن سفارت خانے کی عمارت کا ابتدائی معائنہ" بھی کیاتصویر: Ammar Awad/REUTERS

یورپی یونین کے نمائندوں نے شام کا اقتدار سنبھالنے والے باغی گروپ ہیئت التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے ساتھ براہ راست بات چیت کے عمل کو تیزی سے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ اسی دوران ایک جرمن وفد نے اس گروپ کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔  

اطلاعات کے مطابق جرمن سفارت کاروں نے دمشق میں شام کی اس نئی عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت کی ہے، جس کی قیادت اسلام پسند گروپ ہیئت التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کر رہی ہے۔

کیا بشار الاسد کا زوال ایردوآن کے لیے سُنہری موقع ثابت ہو رہا ہے؟

اس صف میں جرمنی وہ ملک ہے جو بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے ساتھ دوبارہ تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے۔

جرمن دفتر خارجہ نے برلن میں کہا کہ "مذاکرات میں سیاسی منتقلی کے عمل اور اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ہماری توقعات پر خاص توجہ مرکوز کی گئی، تاکہ شام میں ہونے والی پیش رفت کی پرامن حمایت کی جا سکے۔"

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق منگل کی بات چیت کے ساتھ ساتھ وفد نے "دمشق میں جرمن سفارت خانے کی عمارت کا ابتدائی معائنہ" بھی کیا۔

شام میں غیرملکی سفارتی سرگرمیوں میں تیزی

سوشل میڈیا ایکس پر اس حوالے سے جرمن وزارت نے لکھا: "اسد نے شام میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف بارہا کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ اب شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی مکمل تحقیقات اور انہیں تلف کرنے کا موقع ہے۔ ہم کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم کو مزید فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔ اور آج دمشق میں ہونے والے مذاکرات میں بھی اس پر بات چیت کر رہے ہیں۔"

جرمن وفد کی قیادت مشرق وسطیٰ کے سفیر ٹوبیاس ٹنکل کر رہے تھے اور اس میں جرمن وزارت ترقی کا ایک نمائندہ بھی شامل تھا۔

عالمی برادری اسرائیلی حکومت کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خاتمے کو یقینی بنائے، انقرہ

دمشق میں عوام کا جشن
اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد جرمنی نے اس شرط پر شام کی حمایت کی پیشکش کی تھی کہ نئی حکومت میں ملک کی تمام آبادی والے گروپوں کو شامل کیا جائےتصویر: Ammar Awad/REUTERS

برطانیہ کے سفارت کاروں نے پیر کے روز ایچ ٹی ایس کے رہنما احمد الشارع، جو پہلے محمد الجولانی کے نام سے مشہور تھے، کے ساتھ بات چیت کی تھی اور منگل کے روز جرمن وفد نے بھی ان کے نمائندوں سے بات چیت کی۔

گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی آبادی دوگنا کرنے کی منظوری

شام کی حمایت کا فیصلہ

واضح رہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد جرمنی نے شام کی حمایت کرنے کی پیشکش کی تھی، تاہم یہ شرط بھی رکھی تھی کہ نئی حکومت میں ملک کی تمام آبادی والے گروپوں کو شامل کیا جائے۔

برلن میں صحافیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے شام کے لیے "امید کے لمحے" کی بات کی، تاہم انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ یہ دھوکہ بھی ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ شام میں سب کے لیے پرامن اور مستحکم مستقبل کا راستہ مل جائے، اس کے لیے اب تمام کوششیں کی جانی چاہئیں۔"

ترکی نے شامی فوج کو تربیت کی پیشکش کر دی

جرمن وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ "انصاف کے بغیر، کوئی بھی پائیدار مفاہمت نہیں ہو سکتی اور اس کے بغیر کوئی پرامن بقائے باہمی بھی نہیں ہو سکتی۔" 

یورپی یونین کا دمشق میں سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا فیصلہ

اس دوران یورپی یونین نے منگل کے روز شام کی نئی قیادت سے رابطہ کرنے کے بعد، دمشق میں اپنے سفارتخانے کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا۔

شام کے مستقبل کے حوالے سے اردن کی میزبانی میں اجلاس

یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن  کے ساتھ انقرہ میں بات چیت کے دوران کہا، "اب ہمیں ایچ ٹی ایس اور دیگر دھڑوں کے ساتھ اپنی براہ راست مصروفیت کو بڑھانا ہے اور اسے جاری بھی رکھنا ہے۔"

شامی نیوز ایجنسی آئی ایس این اے نے ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بعض بیانات کو شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے شام کی "سیاسی اور سلامتی سے متعلق تیاریوں" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے فی الحال دمشق میں اپنا سفارت خانہ بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)

بشار الاسد کے بعد شام کا مستقبل کیسا ہو گا؟