اسد حکومت کا سقوط اور مشرق وسطیٰ میں بعث پارٹی کا زوال
22 دسمبر 2024بعث پارٹی کے ماہر اور اس کی تاریخ پر کتاب ’دی اسٹرگل فار پاور ان سیریہ‘ کے مصنف نکولاؤس وان دام کے مطابق بشار الاسد کے جانے کے بعد ’’شام میں بعث پارٹی کا زوال یقینی تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اس جماعت کو دوبارہ اپنے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔
عرب سوشلسٹ بعث پارٹی سات اپریل 1947 کو دمشق میں باضابطہ طور پر قائم کی گئی تھی۔ اس کا مقصد سوشلسٹ نظریات کو عرب قوم پرستی کے ساتھ ہم آہنگ کرنا تھا۔
اپنے ابتدائی دور میں بعث پارٹی نے مسلمانوں کے لیے مذہب کے اہم ثقافتی کردار کو تسلیم کیا، کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ تاہم یہ جماعت مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھنے کی حامی تھی اور چاہتی تھی کہ عرب دنیا کے تمام فرقوں کو ایک مشترکہ سیاسی نظام کے تحت متحد کیا جائے۔
تاہم مورخ اور مصنف سمیع مبید کے مطابق نہ تو ان ممالک میں اتحاد تھا اور نہ ہی آزادی، بلکہ جو سوشلسٹ اقدامات کیے گئے، وہ معاشی طور پر تباہ کن ثابت ہوئے۔ خاص طور پر ملکی صنعتوں اور وسائل کو حکومت کے ماتحت لانے کی پالیسی شدید نقصان دہ ثابت ہوئی۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ عراق میں صدام حسین اور شام میں حافظ الاسد اور ان کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد کی کی قیادت میں اس جماعت کی اصل نظریاتی بنیادیں متاثر ہوگئیں اور یہ جماعت آمرانہ حکمرانی کی طرف مائل ہوگئی۔
شامی فضائیہ کے کمانڈر حافظ الاسد نے 1970 میں بعث پارٹی پر اپنا مکمل کنٹرول قائم کیا اور شام میں سخت جابرانہ حکومت قائم کی۔ سن 2000 میں ان کے انتقال کے بعد، ان کے بیٹے بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا۔
عراق میں بعث پارٹی نے 1968 میں جنرل احمد حسن البکر کی قیادت میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا۔ 1970 میں صدام حسین نے اقتدار سنبھالا اور 2003 میں امریکہ کی قیادت میں اتحادی فوج کے ہاتھوں اقتدار سے بے دخل ہونے تک اپنی آمرانہ طرز حکمرانی برقرار رکھی۔
سمیع مبید کے مطابق، ’’بعث پارٹی کے یہ دونوں دھڑے اپنے ممالک کو بربادی کی طرف لے گئے۔‘‘
بعث پارٹی کے دور حکمرانی میں شامی فوج کو 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے چھ سال بعد، 1973 کی جنگ میں بھی شامی فورسز اسرائیل کے خلاف کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔
دوسری جانب عراق میں موجود بعث پارٹی 1980-1988 کے دوران ایران کے خلاف جنگ میں شکست سے دوچار ہوئی۔ پھر سن 1990 میں صدام حسین کی قیادت میں عراق نے کویت پر حملہ کیا اور پھر آخرکار 2003 میں امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نے عراق پر حملہ کرکے بعث پارٹی کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔
شام اور عراق میں بعث پارٹی کے دونوں دھڑے ایک دوسرے کے حریف تھے۔
شام نے 1980 کی دہائی میں عراق کے ساتھ جنگ میں ایران کی حمایت کی۔ حافظ الاسد نے ایران کی شیعہ قیادت کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے سنی صدر صدام حسین کو نظرانداز کیا۔
تاہم دونوں ہی دھڑوں نے اپنے اپنے ممالک میں مخالفین کی آوازوں کو دبانے کے لیے جابرانہ طریقے اپناتے ہوئے تشدد کے ذریعے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی کوشش کی۔ نکولاؤس وان دام کے مطابق ان دونوں میں ایک اور اہم مشابہت یہ تھی کہ ’’بعث پارٹی کے حکام دونوں ممالک میں صدر کے مکمل طور پر تابع ہوگئے تھے۔‘‘
سمیع مبید کے مطابق اگرچہ بعث پارٹی کا زوال ناگزیر تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے پیش کردہ نظریات ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے ہیں۔ عرب قوم پرستی کا دوبارہ احیاء ہو سکتا ہے، لیکن یہ بعث پارٹی کے ذریعے نہیں ہوگا۔
ح ف / ص ز (اے ایف پی)